تحریر : قیوم راجہ
ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے آزاد کشمیر کے ایک انتظامی افسر سلیم گردیزی صاحب کی کتاب غیر ملکی سیاحوں کی سیاحت کشمیر پر میں پہلے بھی تبصرہ کر چکا ہوں۔ اس کتاب میں بیان کردہ معلومات اور طرز تحریر بہت دلچسپ ہے۔ آج اس کتاب کے آخری صفحہ پر ایک بار پھر نظر ڈالی تو اس کے ایک جملے نے دوبارہ مجھے اس پر قلم اٹھانے پر آمادہ کیا ۔ وہ لکھتے ہیں کہ سیز فائر کے چند سال بعد اقوام متحدہ کے نمایندوں کی مدد سے آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر اور پھر اسی راستے واپسی کاسفر کرنے والے ایک انگریز صحافی ایان سٹیفن کے نزدیک شیخ اعبداللہ سیاسی قیادت اور چوہدری غلام عباس دانشوری میں ایک دوسرے پر برتری رکھتے تھے ۔ کتاب کے آخری صفحہ پر امریکہ اور برطانیہ سے چوہدری غلام عباس صاحب کے شکوے کا زکر کیا کہ دوسری عالمی جنگ میں برصغیر کے مسلمانوں نے مغربی اتحادیوں کا ساتھ دیا مگر پھر بھی مغرب نے بھارتی حملے کے خلاف کشمیر کی حمایت نہیں کی۔ میرا خیال ہے اصل شکایت یہ بنتی تھی کہ انگریز حکومت نے اپنے ہے قانون آزادی ھند کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ریاست جموں کشمیر کی عوام کو اقتدار کی منتقلی کے حق کے خلاف سازش کر کے ریاست کو جبری تقسیم کر دیا۔ برٹش انڈیا اور برٹش انڈین ریاستوں کی آزادی کے حوالے سے جو فارمولہ طے کیا اسکی خود خلاف ورزی کی۔ قائد اعظم کی مرضی کے خلاف قبائلی کشمیر میں داخل کروا کر بھارتی مداخلت کی راہ ہموار کی اور پھر ریاست کو تقسیم کرنا دیا بالکل اس طرح جس طرح پہلے خود یہودیوں کو فلسطین میں داخل کیا۔ پھر انکو مسلح کر کے فلسطین میں یہودیوں کے ہاتھوں کیمپ ڈیوڈ ہوٹل میں اپنے فوجیوں کو مروا کر واویلا کیا کہ اب برطانیہ فلسطین میں نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ اسے اپنے شہریوں کی جان زیادہ عزیز ہے۔ اپنی فوج کے انخلاء کا بہانہ تراشنے کی اصل وجہ فلسطین پر صہیونی تنظیموں کے قبضے کی راہ ہموار کرنی تھی۔
دانشور سیاستدانوں کی طرح مصلحت کا شکار نہیں ہوتا۔ اگر چوہدری غلام عباس دانشور ہوتے تو وہ ترک مسلمانوں کے خلاف مغربی اتحادیوں کی فوج میں بھرتی ہو کر ترک مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے بر صغیر کے مسلمانوں پر فخر کرنے کے بجائے ندامت کا اظہار کرتے۔ یاد رہے کہ 1917 میں برطانوی پارلیمنٹ میں اس وقت کے وزیر خارجہ بیلفور نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کا پلان دیا تھا جو اب تاریخ میں بیلفور ڈیکلریشن کے طور پر مشہور ہے جس پر عمل در آمد کے لیے مغربی یہودیوں کو سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید کے خلاف بہت پہلے خفیہ طور پر مسلع کرنا شروع کر دیا تھا۔ برطانیہ نے اپنے بے شمار جاسوس بھی ترکی میں داخل کیے ہوئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ برطانیہ فرانس اور روس تینوں کا مشترکہ مشن تھا جنہوں نے عربوں کو لالچ دیا کہ اسلامی دنیا کی قیادت ترکوں نہیں آپ عربوں کا حق ہے۔ ترکی کے خلاف یماراساتھ دو تاکہ ہم آپکو اپنا حق واپس دلائیں۔
اتحادیوں نے عربوں کو ساتھ رکھ کر ایک طرف فلسطین میں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کی مہم چلائی اور دوسری طرف آزادی کے نام پر آرمینیوں اور کچھ اقتدار پرست ترکوں کو بھی اپنے سلطان عبدالحمید کے خلاف کھڑا کر دیا۔ مڈل ایسٹ کا نیا نقشہ تیار کر کے مغرب کو ناکوں چنے چبوانے والی خطے کی سب سے بڑی جنگجو نسل کردوں کو شام، ایران، ترکی اور اعراق میں تقسیم کر کے عالمی سامراج کے خلاف ایک بڑی طاقت کو ختم کر کے انکی جد و جہد کا رخ نئی مقامی ریاستوں کے خلاف موڑ دیا جو آج 75 ڈال بعد بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں۔
ان حالات میں چوہدری غلام عباس برطانیہ کی فوج میں برصغیر کے مسلمانوں کے کردار پر کیسے فخر کر سکتے ہیں ۔ وہ اگر دانشور تھے تو دانشور کا کام ذاتی سیاسی فائدے نہیں بلکہ قوم کے لیے درست سمت کا تعین کرنا ہوتا ہے ۔ دانشور مسائل کی نشان دہی اور انکا حل پیش کرتا ہے ۔ شیخ اعبداللہ اگر اچھی سیاسی قیادت، چوہدری غلام عباس دانشور اور سردار ابراہیم اور سردار عبدالقیوم محب وطن ہوتے تو ریاست جموں کشمیر کبھی تقسیم نہ ہوتی۔ بد قسمتی سے آج کی سیاسی و مذہبی کشمیری قیادت کی حالت اس سے بھی بد تر ہے۔
غیر جانبدار تجزیہ نگاروں کے مطابق سلطنت عثمانیہ کے خلاف انگریزوں کی فوج میں بھرتی ہونا بر صغیر کے مسلمانوں کی بہت بڑی حماقت تھی کیونکہ ایسے ہی نا سمجھ کہہ لیں یا غدار عربی و اجمی مسلمانوں کی مدد سے پہلی جنگ عظیم میں مغربی اتحادیوں نے خلافت یعنی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا تھا۔ وہ سلطنت عثمانیہ جسکی ایک گرج پر سلطنت برطانیہ کی دیواریں کانپ جایا کرتی تھیں۔ وہ کیسے مسلمان لیڈرز تھے جنہوں نے مغربی اتحادیوں کے ہاتھوں سلطنت عثمانیہ کی تباہی سے سبق حاصل کرنے کے بجائے ایک بار پھر مغربی اتحادیوں کا ساتھ دے دیا اور دیتے ہیں جا رہے ہیں۔ بد قسمتی سے مسلمانوں نے کبھی بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی مغرب کی نفسیات کو سمجھا۔ آج بھی انفرادی مفادات کی خاطر اجتماعی مفادات قربان کیے جا رہے ییں جسکی وجہ سے کسی بھی اسلامی ملک میں امن نہیں ۔
میں جب یو کے جیل میں خفیہ سیاسی سزاکاٹ رہا تھا تو مری سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی قیدی نے مجھ سے برطانوی وزیر داخلہ کے نام سزامیں نرمی کی اپیل لکھوائی جس میں اس نے کہا کہ اسکے والد نے ایک فوجی کی حیثیت سے انگریزوں کے لیے جنگ لڑی تھی۔ اس لیے اس پر رحم کیا جائے۔ میں نے اسے کہا میں پندرہ سال خفیہ سزاکاٹ چکا ہوں اور کوئی پتہ نہیں مزید کتنی کاٹنی پڑے گی۔ تمہاری تو صرف چھ سال سزا ہے اس لیے اتنا ڈرنے اور گرنے کی ضرورت نہیں مگر وہ بضد تھا بلکہ اس نے گھر سے اپنے باپ کی پنشن بک کی کاپی منگوا کر اپیل کے ساتھ نتھی کی۔ برطانوی وزیر داخلہ نے مزکورہ پاکستانی قیدی کو جواب دیا کہ تمہارا باپ فوج میں انگریزوں سے تنخواہ لیتا رہا اور پھر پنشن بھی۔ اس نے جہاد نہیں نوکری کی تھی۔ اپنی عوام کو تیسرے درجے کی نسل سمجھنے والے کئی مسلمان حکمرانوں نے اج بھی سامراجی قوتوں کی سیاسی نوکریاں کسی نہ کسی رنگ میں جاری رکھی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے وہ زلیل و خوار ہو رہے ہیں جبکہ کشمیری لیڈروں نے تو اپنی خرید و فروخت کی بولیاں لگا رکھی ہیں۔ کشمیریوں کو اسوقت سیاسی لیڈروں سے زیادہ عوامی دانشوروں کی ضرورت ہے جو انہیں صحیح راستہ دکھا سکیں۔