تحریر : حسین جاوید افروز
hussainjaved30@gmail.com
کرکٹ کو برصغیر پاک ہند میں جنون کی سی حیثیت حاصل ہے ۔عید ،دیوالی اور ہولی کی طرح کرکٹ کو پشاور تا کلکتہ اور ڈھاکہ تا کولمبو ایک قومی تہوار کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔یہ اب کھیل بھی ہے زندگی بھی اور بزنس بھی ۔لیکن کیا ہمیشہ سے ایسے ہی کرکٹ کو بھارت میں ایسی دیومالائی حیثیت حاصل تھی؟جی نہیں ۔1990 میں من موہن سنگھ کی معاشی اصلاحات کے بعد بھارت میں مغربی کلچر، مغربی برانڈ اور سرمایہ کاری کے دروازے کھلے اور بھارت عالمی افق بن ایک مایا نگری بن کر ابھرا ۔آج انڈین پریمئر لیگ اسی گلیمر اور دولت کی چکا چوند کا منہ بولتا مظہر ہے ۔حال ہی میں ہدایت کار کبیر خان کی فلم 83” نے ایک بار پھر عالمی کپ کرکٹ 1983 کی بھارتی فتح کو جس جذباتی اور حقیقت نگاری کے ساتھ پردہ اسکرین پر دکھایا ہے وہ کرکٹ کے شائقین کے کیلئے کسی سوغات سے کم نہیں ۔یا رہے کہ یہ عالمی کپ بھارت کے لئے محض ایک جیت ہی نہیں تھی بلکہ اس نے بھارتی سماج میں کرکٹ کے حوالے سے ایک انقلاب بھی برپا کردیا۔جس طرح ساٹھ کی دہائی میں بھوپال کے منصور پٹودی ،ستر میں بمبئی کے سنیل گواسکر اور اسی کی دہائی میں ہریانہ کے کپل دیو ابھرے اسی طرح 1983 کے عالمی کپ نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا ۔جس نے آنے والے دنوں میں حیدر آباد دکن کے اظہر الدین ،بمبئی کے سچن ٹندولکر اور کرناٹکا کے انیل کملبے کو ابھارنے میں تازیانے کا کام کیا ۔کپل دیو کے کردار میں رنویر سنگھ نے اتنی ڈوب کر اداکاری کی کہ جیسے کپل دیو کو ایک نیا جنم مل گیا ہو ۔یہ فلم بتاتی ہے کہ کس طرح انڈر ڈاگ انڈین ٹیم نے نا امیدی ،محدود وسائل اور ہر طرف سے کسے جانے والی آوازوں کا سامنا کیا اور خود کو زیرو سے ہیرو بنا کر ہی دم لیا ۔فلم میں دکھایا گیا کہ کس طرح بے سروسامانی کے عالم میں انڈین ٹیم انگلینڈ پہنچتی ہے اور دیگر بڑی ٹیموں کی طرح اس کے لئے ائیر پورٹ پر ایک بس تک کا بھی انتظام نہیں کیا جاتا ۔جب کہ دوسری جانب عالمی چیمپئین ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں جیسے کپتان کلائیو لائیڈ ،ویوین رچرڈز کو بھرپور پروٹوکول اور میڈیا کوریج میسر تھی ۔یہاں یہ بھی دلچسپ رہا کہ خود انڈین ٹیم میں بھی عالمی کپ محض ایک چھٹیاں گزارنے کا موقع تھا اور ٹیم منیجمنٹ میں بھی یہ سوچ موجود تھی کہ بیس جون کے بعد ٹیم کی واپسی کی ٹکٹیں پیشگی بک کروا لی جائیں ۔میچ پریکٹس اور ابتدائی میچز میں برطانیہ میں مقیم انڈین کراوڈ کو بھی ٹیم انڈیا کے جیتنے کے ذرا بھی امید نہیں تھی ۔جبکہ جن ہوٹلز میں انڈین ٹیم کی بکنگ تھی وہ بھی محض گزارے لائق تھے اس پر ستم یہ کہ کھانے کا معیار بھی نہایت ہی ناقص تھا۔ہوٹل میں لانڈری مہنگی ہونے کے سبب کپتان کپل دیو کو اپنے کپڑے خود سرف سے دھونا پڑتے تھے ۔جبکہ دوسری طرف کپل دیو کا بھی کمزور انگریزی کی بدولت پریس ٹاک کرنا بھی اپنا مذاق اڑانے کے مترادف تھا۔یہی وجہ تھی کہ میچ سے قبل ٹیم منیجر نے کپل دیو کو اصرار کر کے مجبور کیا وہ وہ بس میں ہی ٹیم کو جذبہ دے ۔یہاں کچھ مسائل ٹیم کے اندر بھی تھے کہ سات کھلاڑی کپل دیو سے سینئر تھے اور سنیل گواسکر کی بیٹنگ فارم بھی برے دور سے گزر رہی تھی ۔مزید مشکلات تب بڑھیں جب دلیپ وینگسارکر جو” کرنل “کی عرفیت سے جانے جاتے تھے وہ بھی زخمی ہوکر ایونٹ سے باہر ہوگئے ۔جبکہ باؤلنگ کے شعبے میں راجر بنی بھی اس قاتلانہ گیند بازی سے عاری دکھائی دئیے جن کو دیکھ کر کپل دیو ان کو سلیکٹرز سے لڑ کر انگلینڈ لائے تھے ۔جبکہ فاسٹ باؤلر بلوندر ساندھو کا بھی مسئلہ یہ رہا کہ وہ دوران گیند بازی اپنی اسپیشل ڈیلوری بلے باز کے سامنے پھینکنے سے قبل چھپا نہ پاتے تھے ۔بعدازاں گواسکر کے مشورے پر ساندھو نے اپنی اس خامی پر قابو پا لیا۔ان نامساعد حالات میں کپتان کپل دیو کو یہی ریمارکس کھٹکتے رہے کہ کوئی بات نہیں ایک دو میچ جیت لو یہی بہت ہے۔کپل دیو اکثر ڈپرریشن کا شکار ہوتے کہ کیوں ہم گزارے لائق کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں ؟ہم بھی اس ایونٹ کو جیتنے کے اتنے ہی اہل ہیں جتنا کہ ویسٹ انڈیز انگلینڈ یا آسٹریلیا۔تاہم ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے ہی میچ میں یشپال شرما کے بہترین 89 نے بھارت کو عمدہ آغاز فراہم کیا اور پھر مدن لال کی زمبابوے کے خلاف تین وکٹوں نے بھارت کو بہتر پوزیشن دلا دی ۔مگر اگلے میچوں میںآ سٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے ٹیم انڈیا کو پٹخ کر رکھ دیا۔ایک بار پھر ٹیم کی واپسی کی باتیں کی جانے لگیں۔لیکن پھر زمبابوے کے خلاف کپل کی 175 رنز کی میراتھن اننگ نے تو گویا بازی ہی پلٹ دی۔ایک خوفناک صورتحال جب سترہ پر چار بھارتی وکٹیں گر چکی تھیں کپل نے چارج لیا اور اس وقت گلین ٹرنر کی ون ڈے کی 171 اننگ کا ورلڈ ریکارڈ بھی پاش پاش کردیا ۔جبکہ زمبابوے کی بیٹنگ بھارتی باؤلنگ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔اس زوردار فتح سے اسکواڈ میں یہ یقین جاگا کہ ہم بھی کچھ ہٹ کر کرسکتے ہیں۔اگلے ہی اہم میچ میں راجر بنی اور مدن لال کی چار چار وکٹوں نے آسٹریلیاکو بھی چاروں شانے چت کردیا۔ لیکن اب سیمی فائنل کا کڑا امتحان تھا جس میں میزبان انگلینڈ سے میچ تھا ۔مگر یہ مہندر امرناتھ کا میچ تھا جن کی 46 رن کی بروقت اننگ اور دو وکٹوں نے انگلش ٹیم کا بھی قصہ پاک کردیا۔اس میچ کے بعد سابق عظیم بھارتی بلے باز اور مہندر کے والد لالہ امرناتھ بھی بے اختیار کہہ اٹھے ۔”آج مہندر نے مجھے دس سال پہلے کا جوان بنا دیا “۔اس بہترین جیت کے بعد بھارت میں اندرا گاندھی حکومت نے بھی عالمی کپ میں بھارتی ٹیم کی پر فارمنس کی پبلسٹی شروع کرا دی اور یوں فائنل کے لئے سارے ملک میں بے پناہ جوش سا بھر گیا۔فائنل سے قبل اوپننگ بلے باز کرشنم اچاری کانت نے بھی برملہ اعتراف کیا کہ یہ کپل دیو کا جذبہ اور ناقابل شکست رویہ ہی تھا جس نے ہمیں یقین دلایا کہ ہم بھی عالمی کپ کے دعویدار بن کر ابھر سکتے ہیں۔ فائنل میں لارڈز کے تاریخی میدان میں بھارتی ٹیم محض 183 رنز بنا کر ڈھیر ہوگئی ۔اینڈی رابرٹس ،ہولڈنگ اور مارشل کی تباہ کن باؤلنگ کے سامنے محض سری کانت ہی جم کر کھڑے رہے اور 38 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہے ۔تاہم یہی وہ لمحہ تھا جب یہ میچ جو ویست انڈیز کے لئے لقمہ تر ہونا چاہیے تھا وہ نہ ہوسکا۔ویسٹ انڈیز اوپنر پچاس کے اسکور تک ہی پویلین لوٹ گئے ۔مگر ماسٹر بلاسٹر ویوین رچرڈز نے تن تنہا اپنی روایتی گولہ باری جاری رکھی اور برق رفتار 33 رنز اسکور کئے ۔اس موقع پر بیشتر بھارتی تماشائی مایوسی کے عالم میں میدان سے چلے گئے ۔مگر پھر مدن لال کے اسرار پر کپل نے گیند اسے دی اور رچرڈز کا شاٹ ہوا میں معلق ہوا ۔ایسے میں کئی سے کپل دیو نمودار ہوئے اور دور سے بھاگتے ہوئے گیند کو کیچ کرلیا ۔یہی وہ جادوئی لمحہ تھا جب بھارت ،کالی آندھی پر حاوی ہوگیا ۔ اب وکٹیں خزاں کے پتوں کی طرح بکھرتی گئیں اور ڈوجون کی محدود مزاحمت کے باوجود کالی آندھی 140 تک ہی پہنچ سکی ۔اس طرح کپل دیو نے 43 رنز کی جیت درج کرتے ہوئے بھارت کو پہلا عالمی کپ کرکٹ جتوا دیا ۔یہاں مہندر امرناتھ اور مدن لال کی تین تین وکٹوں نے مشہور زمانہ کیر یبین بلے بازی کو اڑا کر رکھ دیا۔یہ ایک میچ کی ہی جیت نہیں تھی بلکہ یہ ایک جذبے کی جیت تھی اور اس ایک جیت نے کرکٹ کو بھارت میں دھرم کی سی حیثیت دلا دی ۔کپل دیو اب ٹرافی تھام چکے تھے ۔وہ لندن میں جشن کی رات تھی ۔مگر کپل دیو آج بھی کہتے ہیں
”اس رات جشن مناتے مناتے ہم تھک گئے تو خیال آیا کہ اس خوشی میں تو کھانا بھی نہیں کھایا ۔بس زوروں کی بھوک لگی ہوئی تھی اور ہمارے پاس پیسے ختم ہوچکے تھے ۔مگر پھر یہ بھی سوچا چلو اب تو ہم عالمی چیمپئین ہیں پیٹ خالی بھی ہوں تو کیا ہوا ہمارے دل تو بھر چکے تھے“ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔