کتاب میلے 2022 کا احوال : حسین جاوید افروز

کتاب میلے 2022 کا احوال : حسین جاوید افروز

تحریر : حسین جاوید افروز

مارچ کا موسم بہار ہمیشہ سے اہل لاہور کے لئے میلے ٹھیلے اورتہواروں کے حوالے سے خاصی خوشگواریت کا سبب بنتا ہے ۔اس بار بہار کی آمد کو چار چاند اس لئے بھی لگے کہ کروونا کے ایک لمبے دور کے بعد لاہور کا سب سے بڑا کتاب میلہ ایکسپو لاہور میں سجایا گیا جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ہر سال یہ میلہ مارچ اپریل میں منعقد کیا جاتا ہے اور ہر بار ہم یہی کہتے ہیں کہ اس طرح کی صحت مند سرگرمیاں سال میں دو بار ہونی چاہیے تاکہ کتابوں کی خوشبو کے رسیا کم از کم اپنی پسندیدہ کتابوں تک رسائی حاصل کر سکیں ۔اس بار میں جب ہم لاہور کتاب میلے میں پہنچے تو عوام کی ایک بڑی تعداد دیکھ کر بہت شاداں ہوئے کہ اس موبائل اور سوشل میڈیا کے بے ہنگم دور میں بھی کتاب بینی کا جنون ہنوز موجود ہے ۔کتاب میلے میں ہر موضوع جیسے سماجیات ،معاشیات ،سیاسیاست ،ادب ، سائنس،مذہب اور بچوں کی کتابوں کے بیشمار اسٹال سجائے جاتے ہیں جہاں پانچ سال سے لے کر پچاسی سال کے بچے بھی بہت اشتیاق سے منڈلاتے ہیں۔ہماری ہر بار یہی کوشش ہوتی ہے کہ کہ ساراسال من پسند کتابوں کی ایک فہرست مرتب کی جائے اور کتاب میلے میں شریک ہوکر اس فہرست پر عمل درآمد کیا جائے ۔اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ فہرست دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور ایسی بے شمار دلچسپ کتابوں سے تعارف ہو جاتا ہے جن کو ہم اپنی ذاتی لائبریری کی زینت بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔تاہم اس بار بھی عکس پبلی کیشنز،سنگ میل ،آکسفورڈ،بک کارنر جہلم ،فکشن ہاؤس ،کتاب سرائے ،فیروز سنز ،ریڈنگز اور علم وعرفان بکس نے گویا دیدہ زیب کتابوں کے انبار لگا کر ایک سماں باندھ دیا تھا ۔سب سے پہلے ہم نے بک کارنر جہلم کے اسٹال پر جاکر شکیل عادل زادہ صاحب کے” سب رنگ“ سلسلے کی چوتھی کتاب اپنے بستے میں ڈالی ۔”سب رنگ“ غیر ملکی کہانیوں کا ایسا نایاب مجموعہ ہے جس کو نہایت ہی بہترین طباعت کے ذریعے بک کارنر جہلم والوں نے لاجواب بنا دیا ہے ۔اس میں کچھ شک نہیں کہ بک کارنر جہلم نے نہایت محدود وقت میں اپنی کتابوں کی بہترین اشاعت کے ذریعے خود کو پبلشنگ کے میدان کا سب سے اہم کھلاڑی ثابت کیا ہے ۔اسی طرح سنگ میل کے اسٹال پر ہم نے سدا بہار مستنصر تارڑ صاحب کی تصنیف ”لاہور دیوانگی “بھی حاصل کی جو لاہور، کرتار پور اور گوجرانوالہ کے اہم مقامات کی بہترین عکاسی کرتی ہے ۔یہ تارڑ صاحب کی ہمت ہے کہ اسی برس کی عمر میں بھی ان کے اندر کا ادیب اور کو ہ نوردراب بھی چاق و چوبند ہے ۔اس کے علاوہ فکشن ہاؤس سے بھارتی لکھاری رومیلا تھاپر کی کتاب” سومناتھ“ بھی نہایت نایاب اضافہ ثابت ہوئی ۔جس میں عمیق تحقیق سے رومیلا تھاپر نے ثابت کیا کہ سومناتھ مندر کی تباہی کو محمود غزنوی کے ساتھ جوڑنا محض تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے ۔اس بار عکس بکس نے بھی نہایت نادر کتابوں کا ایسا ذخیرہ جمع کیا کہ اس سے صرف نظر ممکن ہی نہیں رہا ۔عکس کے اسٹال سے صحافی حبیب اکرم کی پاک افغان تعلقات کے حوالے سے کتاب نہایت ہی پر مغز ثابت ہوئی ۔جبکہ بھارتی اداکار بلراج ساہنی کے بھائی بھیشم ساہنی کی کتاب” امرتسر آگیا ہے“ بھی تقسم ہند کی ہولناکیوں کو عمدگی سے بیان کرتی ہے ۔اسی طرح فوسٹر کے معروف ناول A passege to Indiaکا اردو ترجمہ” انڈیا کا ایک سفر “بھی توجہ کا مرکز بنا رہا ۔جبکہ 1971کی جنگ پر مبنی کتاب ”سرنڈر ناممکن“ بھی اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی کہ کس طرح پاک فوج کے لانس نائیک اسلم نے اپنے ساتھیوں سمیت بنگلہ دیش سے برا ستہ بھارت اپنا سفر جاری رکھا اور پاکستان پہنچ کر ہی دم لیا ۔اسی موضوع پر برگیڈ ےئر منصور الحق کی” ایک قیدی کی ڈائری“ بھی ایک جنگی موضوعات کے حوالے سے ایک گراں قدر اضافہ ہے جس میں بھارتی قید کے دوران ہمارے مجاہدوں کی زندگی پر حقیقت کی آنکھ سے روشنی ڈالی گئی۔اس کتاب کو فضلی بکس کراچی نے چھاپا ہے ۔اسی طرح کتاب سرائے کے اسٹال پر کئی ہندوستانی کتابیں بھی توجہ کی طالب رہیں جن میں اداکار بلراج ساہنی کی آپ بیتی” میری فلمی سرگزشت “بھی نہایت دلچسپ پیرائے میں لکھی گئی۔بلراج ساہنی بھی اس کتاب میں پاکستان میں اپنے آبائی علاقے بھیرہ اور راولپنڈی کو جا بجا خراج تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔آکسفورڈ کے اسٹال پرتقسیم ہند کے حوالے سے مسعود مفتی کی تصنیف” دو مینار “بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔جبکہ اس کے ساتھ اردو ادب سے شغف رکھنے والوں کے لئے ناصر عباس نیرکی کتاب ”جدیدیت اور نو آبادیات“بھی اردو ادب کے مختلف گوشوں کو بے نظیر انداز میں پیش کرتی ہے ۔پاک افغان کے تعلقات کے حوالے سے ریڈنگز کے زیر اہتمام سابق سفیر ریاض محمد خان کے مشاہدات پر مبنی کتاب ”افغانستان اور پاکستان“بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ایک بہترین اضافہ قرار دی جاسکتی ہے ۔یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جہاں اس کتاب میلے میں بے شمارنئی اور نایاب موضوعات پر مبنی کتابیں کھنگالنے کا موقع ملا وہاں کچھ اہم پبلشرز جیسے جمہوری پبلشرز، تخلیقات ،نگارشات اور بک ہوم کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی۔بایں ہمہ کتابوں کی سنگت میں اس تین روزہ میلے کے گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور اس بات پر دوبارہ زور دیتے ہوئے کالم کا اختتام کرتا ہوں کہ اس طرح کی صحت مند سرگرمیاں سال میں دو بار ہونی چاہیے تاکہ کتابوں کی خوشبو کے رسیا اپنی پسندیدہ کتابوں تک زیادہ سے زیادہ رسائی حاصل کر سکیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*