اسلام میں تصور محبت : محمد سعد سعدی

اسلام میں تصور محبت : محمد سعد سعدی

تحریر : محمد سعد سعدی

انسان میں فطری طور پر محبت کے جذبات موجود ہوتے ہیں کیونکہ انسان کا لفظ ماخوذ ہی انس کے مادے سے ہے جس کا معنی "مانوس ہونا، محبت کرنا، قلبی سکون حاصل کرنا” کے آتے ہیں۔ فطری صلاحیت کو اگر کسی مثبت جگہ استعمال نہ کیا جائے تو یقینی طور پر وہ منفی جگہ استعمال ہوتی ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے محبت کو مطلقا ناجائز قرار نہیں دیا بلکہ اس کے مثبت پہلو ذکر کرتے ہوئے اس کی حدود و قیود بیان فرمائیں۔

محبت کا سب سے پہلا حق اللہ تعالٰی کا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے بہترین سانچے میں ڈھالا۔ پیدا کرنے کے بعد انسانی زندگی کی تمام ضروریات کی تکمیل کا انتظام فرمایا اور ان گنت نعمتیں عطا فرمائیں۔ گویا کہ انسان کا سب سے بڑا محسن اللہ تعالٰی ہے اور محسن سے بے وفائی کرنا اور احسان فراموش کرنا تو عرفا بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔ اللہ کی محبت وہ واحد محبت ہے جس کی کوئی حد نہیں، اللہ تعالٰی نے سورہ البقرہ میں فرمایا کہ ایمان والوں کو سب سے زیادہ محبت اللہ سے ہوتی ہے۔ ہم ایمان کا دعوی کرنے والے کیا اللہ سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں؟

دوسرا حق نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا ہے جو اس کائنات میں اللہ تعالٰی کے بعد سب سے بلند و بالا مقام رکھتے ہیں۔ آپ علیہ السلام کے اس امت پر بے شمار احسانات ہیں، ان احسانات کا تقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے لیکن محبت ان معیارات پر کی جائے جو معیار نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم خود بیان فرما گئے۔

تیسرا حق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہے جنہوں نے محنت و مشقت اور قربانی دے کر پورا دین آپ علیہ السلام سے سیکھنے کے بعد امت تک پہنچایا اور ہمیں نعمت اسلام سے سرفراز ہوئے۔ اسی طرح تابعین و تبع تابعین اور اولیاء اللہ سے محبت بھی ایمان کا حصہ ہے کیونکہ یہ محبت اللہ اور رسول کی نسبت سے ہے۔

چوتھا حق والدین کا ہے جو ظاہری طور پر دنیا میں آنے کا ذریعہ بنتے ہیں، چلنا، بولنا سکھاتے ہیں اور اسے ایک تن آور درخت بننے میں مکمل مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تمام رشتے جو والدین کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں جیسے دادا، چچا، نانا ماموں اور خالہ وغیرہ۔ نکاح کے بعد بیوی اور اولاد سے محبت پھر اپنے پوتوں اور نواسوں سے محبت فطرت اور شریعت کا حصہ ہے۔ آخری حق اسلام کی بنیاد پر تمام اہل اسلام سے محبت کا ہے۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے تمام اہل اسلام سے محبت کو ایمان کی تکمیل قرار دیا۔

اس کے مد مقابل غیر محرم اور اجنبی عورت سے محبت، تنہائی میں ملاقات اور اختلاط سے منع فرمایا۔ صرف نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے چھپ کر تعلقات قائم کرنے کو یا اس بنیاد پر کئے ہوئے عقد کو ناجائز قرار دیا۔ مردوں کو نگاہ نیچے رکھنے کا اور عورت کو پردہ کا حکم دیا۔

ان تمام تر تفصیلات سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اسلام نے محبت کو کلی طور پر غلط قرار نہیں دیا بلکہ اس کا ایک صحیح اور جامع تصور دیا۔ معاشرے میں محبت کا غلط استعمال اس وقت ہوتا ہے کہ جب انہیں مثبت جگہوں پر محبت کرنا نہ سکھایا جائے کیونکہ محبت کرنا تو فطرت انسانی کا تقاضا ہے، تو کہیں نہ کہیں اسے اپنی فطرت کے مطابق محبت کرنی ہے۔ اس وقت معاشرے میں ناجائز محبت کی روش عام ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس کا اظہار کے لئے عالمی طور پر 14 فروری کا دن منایا جاتا ہے۔ ہماری ذمہ داری غلط اور ناجائز محبت کے خلاف لکھ دینے سے یا اس دن کی حقیقت واضح کرن اور اصلیت بتا دینے سے مکمل نہیں ہوتی، بلکہ اس کی روک تھام کے لئے عملی اقدام کرنا ہوگا۔

عملی اقدام یہ ہے کہ بچے کو ابتداء سے ہی اللہ تعالٰی کی عظمت و کبریائی کے بارے میں بتایا جائے، نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کے احسانات و قربانیوں کا ذکر کیا جائے، اصحاب رسول و اہل بیت رسول، امہات المومنین، بنات طیبات اور صحابیات کی سیرت سے آگاہ کیا جائے اور تابعین و اولیائے امت کی قربانیوں کا ذکر کیا جائے، پھر اسلام میں جو والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کا اور اہل و عیال کے متعلق تعلیمات دی گئی ہیں ان سے روشناس کرایا جائے اور تاکہ ان سب کی محبت اپنے اپنے درجے میں انسان کے اندر پیدا ہو جائے۔ جب یہ محبت کا جذبہ درست سمت میں استعمال ہوگا تو ان شاء اللہ منفی اور ناجائز محبت کے تصورات دل میں نہیں آئیں گے اور معاشرہ اس بے راہ روی سے پاک ہو جائے گا۔

محمد سعد سعدی
Saadm8446@gmail.com
فاضل درس نظامی و متخصص
امامت و خطابت اور تدریس و تصنیف

تعارف: ویب ڈیسک

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*