تحریر : وصال محمد خان
ہمارے پیارے خطرناک اعظم نے یہ ہدایت شائدکوئی ایک لاکھ ویں باردی ہوگی ۔جب بھی ترجمانوں کااجلاس بلایاجاتاہے ،اجلاس بھی الاماشاء اللہ ہفتے میں دوچارمرتبہ توضرور بلائے جاتے ہیں اورجب بھی ایسے اجلاس بلائے جاتے ہیں توان میں یہی ایک ہدایت ضروردی جاتی ہے کہ عوام کوشریف اورزرداری خاندانوں کی کرپشن اورچوری کے بارے میں بتائیں ۔ترجمان بیچارے بھی مرتے کیانہ کرتے دوچاردن نئے ولولے کیساتھ شریف اورزرداری خاندان پرحملہ آورہوتے ہیں ۔ کرپشن کرپشن ،سابقہ نااہل اورکرپٹ حکومتیں ،35 سال حکومت ، سرے محلات اورایون فیلڈپارٹمنٹس ، مریم نوازکی بیرون ملک توکیااندورن ِ ملک جائیدادنہیں ، اتنے ارب اس اکاؤنٹ میں آئے، اتنے ارب اس اکاؤنٹ سے منتقل ہوئے ، پیسہ واپس کرو،وغیرہ وغیرہ سے میدان گرمانے کی کوشش کرتے ہیں ،اسکے بعدنہ ہی انکی راگ میں کوئی سوزباقی بچ جاتاہے اورنہ ہی سامعین اس راگ میں کوئی دلچسپی لیتے ہیں توترجمان ذراخاموش ہوجاتے ہیں یاپھرسانس لینے کورک جاتے ہیں ۔ اتنے میں ایک مرتبہ پھرخطرناک اعظم اجلاس بلالیتے ہیں اورمذکورہ بالادونوں خاندانوں کی کرپشن اجاگرکرنے کی ہدایت دی جاتی ہے ۔ان ہدایات درہدایات میں ساڑھے تین برس بیت گئے مگرنہ ہی کسی کرپٹ سیاستدان سے کوئی رقم واگزارکرائی جاسکی اورنہ ہی کسی کوکرپشن یاچوری وغیرہ پرکوئی سزاہوسکی ۔بلکہ احتساب اکبر(سوری شہزاداکبر)کے بنائے گئے کیسزمیں ایک ایک کرکے نہ صرف اعلیٰ عدلیہ نے ضمانتیں دیں بلکہ کمزوراورگھٹیاکیسز بنانے پرنیب وغیرہ کی سرزنش بھی کی گئی اورکئی مرتبہ کی گئی ۔ہمارے قابل صداحترام خطرناکِ اعظم جن نعروں سے برسراقتدارآئے ہیں وہ ان سے جان چھڑاناہی نہیں چاہتے بلکہ انہیں گلے سے لگاکررکھناچاہتے ہیں ۔حالانکہ اب یہ نعرے دقیانوسی ہوچکے ہیں ، ان نعروں ،بیانات ،انٹرویوز،دعوؤں نے قوم کوکچھ نہیں دیا۔اب قوم بھی ماشاء اللہ جان چکی ہے کہ خطرناکِ اعظم نوازشریف ،زرداری وغیرہ نامی سالن کیساتھ روٹی لگالگاکراقتدارمیں آئے تھے ۔یہ سالن اس وقت تازہ تھا۔اس نے آپکوروٹی لگاکرکھانے کی جوسہولت دینی تھی وہ دے چکی ۔اب یہ سالن تقریباٍباسی ہوچکاہے ۔اب نوازشریف ،شہبازشریف اورزرداری کے کرپشن کی کہانیاں یاسالن نہ بکنے والی ہے اورنہ ہی اس سے آپ خودمزیدروٹی لگاکراقتدارکے جھولے میں جھول سکتے ہیں ۔ اقتدارمیں رہنے کیلئے اس ملک کے عوام کیلئے کچھ کرناپڑتاہے ۔انکی زندگیوں میں سہولیات فراہم کرناپڑتی ہیں ۔دانشمندی، تدبر،مہارت اورچابکدستی سے ملکی مفادکے فیصلے کرناپڑتے ہیں ۔ایل این جی کی بروقت عدم خریداری نے جہاں قوم کی جیب سے ہزارہاارب روپے اضافی نکال لئے وہاں صنعت کاپہیہ رک گیا،سی این جی کی عدم دستیابی سے ٹرانسپورٹ چلنامحال ہوگیا،بجلی کی ہوشربابلوں سے چھوٹے کارخانے جام ہوگئے ۔ترجمانوں کافرماناہے کہ ترقی کی شرح پانچ سے اوپرہوگئی ہے ۔کارخانے اورٹرانسپورٹ کی بندش سے دنیامیں شائدہم واحدمملکتِ عجائب ہیں کہ ہمارے ہاں گیس موجودنہیں ،گھریلوصارفین بھی گیس کوترس گئے جبکہ کمرشل کاحال ہی براہے ،کارخانے بندہیں اسکے باوجودترقی کی شرح بلندہورہی ہے ۔بجلی یاتوموجودنہیں اگرموجودہے تومہنگی اتنی کہ گھریلوصارفین سمیت کارخانہ داروں کی قوت خرید سے بہت زیادہ مہنگی ہے ۔اسلئے چھوٹے کارخانہ دارنے کارخانے بندکرکے سڑک کنارے احتجاجی کیمپ لگالئے ہیں ۔اوروہ بے چارگی کی عالم میں خطرناکِ اعظم والے شغل یعنی بل جلانے پراترآئے ہیں ۔خطرناکِ اعظم خیبرپختونخوامیں گزشتہ ساڑھے آٹھ برسوں سے اپنی خطرناکی کے جلوے دکھارہے ہیں مگریہاں مردان میں ایشیاکاسب سے بڑاشوگرملزبندپڑاہے ،تخت بھائی اورخزانہ شوگزملزبندپڑے ہیں ۔ملک کی سب سے بڑی پاکستان لوکوموٹوفیکٹری بندہے ۔یہ کارخانے نہ صرف صوبے بلکہ ملک کے بڑے کارخانوں میں شمارہوتے ہیں ۔جو سب بندہیں۔ مگرخطرناکِ اعظم اورانکے طوطی اعلیٰ (سوری وزیراعلیٰ بزدارپلس) کاارشادہے کہ صوبہ میں صنعت ترقی کررہی ہے اورملک کی ترقی کی شرح فروری کی درجہ حرارت کی طرح بڑھ رہی ہے۔ زراعت کے شعبے میں اس مرتبہ بمپرکرافٹ ہوئی ۔یہ بیشترترجمان حضرات کاخیال ہے ۔بمپرکرافٹ کے باوجودپچاس لاکھ ٹن گندم ایک زرعی ملک نے درآمدکی ۔زراعت کے شعبے میں بہت بڑاپیسہ گیا۔پیسے نے توجاناہی تھاکہ جب 12سوروپے من والی گندم ساڑھے تین ہزارروپے من ہوگئی ۔ اس شعبے نے توبلکہ دیگرتمام شعبہ جا ت کاٹھپہ بٹھادیا۔گندم انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔یہ ضرورت اس قدرمہنگی کردی گئی ہے کہ دیگرکئی مدات میں جانے والی رقم اس نے کھینچ لی ۔زراعت کے شعبے میں توپیسے نے جاناہی جاناتھا ۔ اب اس مرتبہ اس شعبے میں گزشتہ برس سے بھی زیادہ پیسے نے جاناہے کیونکہ اس مرتبہ کسان یازمیندارکوکھادکی مدمیں بہت بڑاٹیکہ لگایاگیاہے ۔گندم نے جوپیسہ کسان کودیاتھا۔وہی پیسہ کھادنے واپس کشیدکرلیا۔اب کسان گندم مزیدمہنگی بیچے گا۔اورایک اندازے کے مطابق اس مرتبہ گندم کی فی من قیمت 5 ہزارروپے سے تجاوزکرسکتی ہے ۔رواں برس حکومت نے اکیس سوروپے نرخ مقررکیاتھامگرآج کہیں بھی گندم نامی جنس کی قیمت ساڑھے تین ہزارروپے فی من سے کم نہیں ۔اگلے برس یہ قیمت پانچ ہزارسے متجاوزہوجائیگی ۔ترجمان ایک مرتبہ پھرراگ الاپناشروع کردیں گے کہ گندم کی بمپرکرافٹ ہوئی اورہزارہاارب روپے زراعت کے شعبے میں چلاگیا۔کمال یہ ہے کہ جس زراعت کے شعبے نے ملک کوسستی خوردنی اجناس فراہم کرنی ہے ۔وہی زراعت سرکاری محکموں کی طرح عوام کاخون کشیدکرنے میں لگ گیا۔خان صاحب سے قبل 35 سال والی کرپٹ حکومتوں میں ایسانہیں ہوتاتھا۔کہیں سال دوسال میں گندم یاآٹے کی قیمتیں دوچارروپے تھیلابڑھ جاتی تھیں اب توبمپرکرافٹ ہوتی ہے توقیمتیں بھی ازخودبمپربن جاتی ہیں بلکہ بپھرجاتی ہیں ۔ جوعوام کی قوت خریدسے آگے بڑھ جاتی ہیں ۔ اس پرحکومت خوشی سے بغلیں بجارہی ہے کہ زراعت کے شعبے میں اتناپیسہ گیا۔ یہ پیسہ عوام کی جیبوں سے اضافی گیا۔جوان پربھاری گزررہاہے ۔اسی فیصدسے زائدلوگ خوراک کیلئے کولہوکے بیل کی طرح جتے ہوئے ہیں ۔جوبمشکل خوراک کماپارہے ہیں ۔دیگرضروریات سے لوگ انجان ہوچکے ہیں ۔اب کرپشن اورترقی شرح کی ماورائی کہانیاں مزیدنہیں چلنے والی ۔اب لوگ کرپشن کی مزیدکہانیاں سننے کوتیارنہیں ۔ ترجمانوں پرلوگ ہنستے ہیں ۔ بس کیجئے ۔کچھ کام کیجئے ۔بہتر فیصلے کیجئے ۔تاکہ آپکے اقدامات خودبولیں ۔ کارکردگی خودبولتی ہے ۔اس کیلئے ترجمانوں اوراجلاسوں کی ضرورت نہیں پڑتی ۔