تحریر : شہزادروشن گیلانی
نجی تعلیمی اداروں میں طالبعلم ایک سمیسٹر میں تقریباً چھ سبجیکٹ پڑھتا ہے جس دوران اسے اکثر و بیشتر اسائنمنٹ ملتی ہیں جسے وہ کلاس کے دوران پریزنٹ بھی کرتا ہے اور آج کل چونکہ لرننگ مینجمنٹ سسٹم کا دور ہے تو اس اسائنمنٹ یا پریزینٹیشن کو ایل ایم ایس پر اپلوڈ بھی کرتا ہے اور اس کے بعد طلباء کو کہا جاتا ہے کہ وہ پرنٹ کروا کر جمع کروائیں۔ اب اس صورت حال میں ان والدین کے پیسے درختوں پر لگے ہیں جو ایل ایم ایس مینجمنٹ کے پیسے بھی فیسوں میں ادا کرتے ہیں اور پھر اسائنمنٹس کی پرنٹنگ کی مد میں ہزاروں کے اخراجات کا بوجھ بھی کمر توڑتی مہنگائی میں والدین کو اٹھا نا پڑتا ہے اور اگر آن لائن ہونے کے باوجود اگر سب کاغذی چلنا ہے تو پھر آن لائن کیوں مجھے تو اس سسٹم میں ابہام نظر آ رہا ہے۔
ایک مثال اور سامنے رکھتا ہوں چالیس سلائیڈز پر مشتمل ایک اسائنمنٹ اگر چالیس صفحات پر نکلے گی تو چار سو کا خرچہ آئے گا۔ اگر دو گروپ ممبران ہوں گے تو تقسیم کر کے دو سو ایک کا خرچہ ہو گا اور اب اگر ایک صفحے پر چار سلائیڈز آئیں وہ تب بھی پڑھنے اور چیک کرنے لائق رہتی ہیں تو دس صفحات پر یہ پرنٹ ہو جائے گا اور خرچہ آئے گا۔ سو روپے اور دو پر تقسیم پچاس روپے بالترتیب زیادہ گروپ ممبران کی صورت میں اور بھی کم خرچ ہو گا اور اگر استاد یہ کہہ دیں کہ سب گروپ ممبران الگ الگ پرنٹ دے دیں اور ایک پیج پر ایک سلائیڈ ہو تو پیپر اور پیسوں کا کتنا ضیاع ہو گا۔
آپ غور فرما لیں میری ناقص عقل کے مطابق اس بے تکے خرچ کی مجھے سمجھ نہیں آتی۔ اب آگے بڑھتے ہیں کہ کیا یہ دو چار سو روپے کی بات ہے جس چند طلباء کی بات ہے تو اس حوالے سے ایچ ای سی کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ کوئی اڑھائی سو کے قریب قریب یونیورسٹیاں پورے پاکستان سے ایچ ای سی سے سند یافتہ ہیں۔ اس حساب سے ایک محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش کوئی پانچ لاکھ طلباء بھی زیر تعلیم ہیں تو ان میں زیادہ تر کے والدین وہ ہیں جن کو فیسیں ادا کرنے کے لیے وقت کو ذہن میں رکھنا پڑتا ہے اور اپنی خواہشات کو روک کر شاید فیس ادا کرنی پڑتی ہو گی تو اس صورتحال میں میں سمجھتا ہوں والدین کو اس اضافی خرچ یا اسی طرح کے ملتے جلتے اخراجات سے نجات دی جانی چاہیے اب آتے ہیں۔
اصل پہلو کی طرف ہمارے ہاں تو سوال کرنا موت کے برابر عمل ہے اور طالبعلم کے لیے یہ امر موت سے بھی بڑھ کر ہے کہ اسے کسی بھی وجہ سے تعلیمی ادارے میں فیل کیا جائے لہذا وہ اس اضافی خرچ پر سوال کیے بغیر والدین کا بوجھ بڑھانے کو مجبوراً ترجیح دیتا ہے۔ اب وہ پانچ لاکھ کو ایک سو روپے روزانہ یا کم از کم دو ہزار روپے ماہانہ سے ضرب دے کر دیکھ لیں آپ کو پتا چلے گا کہ چل کیا رہا ہے۔ اب جب یہ بات ہو گئی ہے تو ظاہر ہے
سوال پیدا ہو گا کہ حل کیا ہے۔ حل یہ ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اس طرح کی اور کئی چیزوں کا نوٹس لینا چاہیے لیکن وہ تب نوٹس لے گا جب آپ کو فرق پڑے گا۔ ہاں اگر آپ کے والدین کو اس سے فرق نہیں پڑتا تو چلتا رہنے دیں لیکن یہ فضول خرچی کرنے سے بہتر ہے۔ وہ پیسے اپنے احباب میں موجود کسی ایسے بچے کی تعلیم یا مدد پر صرف کریں جو خود کر نا پا رہا ہو اور والدین، بڑے بھائیوں، بہنوں اور گھر کے سربراہان سے گزارش ہے کہ فیل ہو جانے کے ڈر سے حق بات پر خاموش رہنے جیسی عادت نا لگنے دیں کیونکہ اس سے اس ضمیر ہی مر جائے گا اور وہ کبھی حق کی بات پر آواز نہیں اٹھائے گا۔
میں اپنی یونیورسٹی کے ایام میں اگر دو نمبر پانی کیفے میں دیکھتا تو درخواست دیتا یا پارکنگ فیس بڑھائی جاتی تو بھی اپنی آواز بلند کرتا تھا۔ کئی بار ان بیس روپوں کو میری درخواست پر دوبارہ دس روپے پر لایا گیا اور معزز اساتذہ و تعلیمی اداروں کے فیصلہ سازوں تک اگر میری یہ تحریر پہنچ رہی ہے تو ان سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ طلباء آپ کے پاس شاہین بننے آتے ہیں۔ انہیں سوال کرنے کا اور غلط پر درخواست دینے کا حق ضرور دیں کیونکہ اگر آپ نے اگر ان سے یہ حق چھینا تو وہ کوئی قابل فخر شہری نا بن پائیں گے۔
اب آتے ہیں طلباء کی طرف۔ پیارے بچو حق بات کہہ دیا کرو تمیز اور احترام کا دائرہ پھلانگے بغیر بھی مدلل بات کہی جا سکتی ہے۔ اگر آپ میری تحریر پڑھ رہے ہیں تو آپ ای میلز کر کے ایچ ای سی کو مجبور کر دیں کہ اس کو اس طرح کے چھوٹے چھوٹے معاملات پر قانون سازی کرنی پڑے اور سنجیدہ لینا پڑے تحریر کے آخر میں میری ای میل بھی موجود ہے۔ مجھے ای میل کر کے ضرور بتائیں کہ میں نے درست نقطے پر بات کی ہے جس وقت ضائع کیا ہے۔
آپ کی طرف سے نشاندہی آنے پر ایک دستاویز کی شکل درخواست ایچ ای سی کو ارسال کی جا سکتی ہے اور آخر میں اگر کوئی محترم ہائر ایجوکیشن کمیشن سے میری تحریر پڑھ رہا ہے تو ان سے بھی گزارش ہوگی کہ ان چھوٹے چھوٹے معاملات کا مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے والدین اور بچوں کا گہرا رشتہ ہے اور بطور قانون ساز اور فیصلہ ساز ادارہ ایچ ای سی بہت سے معاملات میں بہتری بھی لا سکتا ہے اور اس کو کنٹرول بھی کر سکتا ہے۔
اس کے ساتھ جڑا ایک اور اہم ترین معاملہ پیپر درختوں سے بنتا ہے اور پھر بہت درخت کٹتے ہیں۔ قانون سازی کر کے غیر ضروری پیپر کے استعمال کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے اور آج کے اس دور میں جب ٹیکنالوجی عروج پا رہی ہے۔ مجھے بینک ٹرانزیکشن پر اور بہت سی خریداریوں پر تفصیلات میسج پر موصول ہو جاتی ہیں تو پیپر کیوں؟