قدیم اور جدید غلامی

قدیم اور جدید غلامی

تحقیق: ڈاکٹر نوربخش
تبصرہ: قیوم راجہ

قدیم اور جدید غلامی کی اصطلاح کے خالق ہمارے ایرانی نظریاتی دوست ڈاکٹر امین حسین نوربخش ہیں۔ ڈاکٹر نوربخش ایران میں پبلک لا کے پروفیسر ہیں جنہوں نے اپنے تحقیقی پیپر میں قدیم اور جدید غلامی کا موازنہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ انسان آج بھی انسان کی غلامی سے آزاد نہیں ہوا۔ غلامی نہیں صرف اسکی شکلیں بدلی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انداز بدلے ہیں حالات نہیں بدلے جسے انسان کی سب سے بڑی ناکامی و نامرادی قرار دی جاسکتا ہے۔

قدیم اور جدید غلامی کو ڈاکٹر نور بخش براہ راست اور برائے راست غلامی بھی کہتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں صاحب اقتدار اور صاحب حثیت افراد کمزور اور غریب انسان کو براہ راست اپنی تحویل میں لے کر اس سے ہر قسم کا کام کرواتے تھے۔ غلاموں کے بچے بھی غلام بنالیے جاتے تھے۔ اس طرح نسل در نسل غلامی کاسلسلہ جاری رہتا تھا۔ آقا اپنے غلاموں پر اسی طرح حق ملکیت کا دعویٰ کرتا تھا جس طرح اپنی ذاتی جائیداد پر۔ دولت مند افراد انسانوں کی خرید و فروخت کا گھٹیا کام کرتے تھے۔ بعض اوقات معاہدے کے تحت ٹھیکے بھی ہوتے تھے اور ٹھیکے پر اگر کوئی انسان لیا جاتا تو معاہدہ پورا ہونے کی صورت میں والدین تو واپس کر دیے جاتے مگر انکے بچے جس مالک کی نگرانی میں پیدا ہوتے وہی ان کو رکھ لیتا۔ غلاموں کی ایک اور قسم جنگی قیدی ہوتے۔ جو ملک پکڑ لیتا وہ دوسرے ملک کے ہاتھ قیدیوں کو فروخت کر دیتا۔ ایسے غلاموں کو دو وقت کی روٹی کے بغیر کچھ نہ ملتا۔ اس طرح کی غلامی کے خاتمے کاآغاز ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ۔ یہ الگ بات ہے کہ عرب ممالک میں نظام کفالت کے تحت آج بھی مزدور خاصکر غیر ملکی کفیلوں کے قیدی ہیں۔

ڈاکٹر امین نوربخش جدید غلامی کا تزکرہ کرتے ہوئے نام نہاد "ماڈرنائزیشن، ڈویلپمنٹ، ٹیکنالوجی، انڈسٹری اور مہاجرت” کو جدید غلامی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ انکا الزام ہے کہ سائنسی ترقی کرنے والے ممالک ترقی پزیر ممالک کا استحصال کر رہے ہیں۔ وسائل پر انہوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ٹیکنالوجی بھی انکے قبضے میں ہے۔ نو آبادیاتی نظام نے بظائر آزاد ہونے والے ممالک کو عملی غلامی سے آزاد نہیں کیا۔ تاجروں اور انڈسٹری کے مالکوں نے من پسند نظام قائم کر رکھا ہے جو کم سے کم اجرت ہر زیادہ سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کے لیے بچوں کو اغوا کر کے ان سے کام لیا جاتااور گداگری بھی کروائی جاتی ہے فلم انڈسٹری اور ایڈورٹائزنگ کمپنیاں جنسی غلامی کے جرم کاارتکاب کر رہی ہیں نوجوان اور خوبصورت لڑکیوں کو دبلا پتلا رکھنے کے لیے ہیٹ بھر کا کھانا بھی نہیں کھانے دیتیں۔ بعض لڑکیاں ڈائٹنگ کے چکر میں بیمار بھی ہو جاتی ہیں۔ عالمی جنگوں کی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک نے سابق کالونیوں سے سستی لیبر حاصل کی مگر انکو پورے حقوق نہیں دیے۔ عرب ممالک میں تو غیر ملکی مزدوروں کا ناقابل یقین اور ناقابل بیان استحصال ہوتا ہے۔ یہ برائے راست غلامی ہے جس کی وجہ طاقتور قبائل، سامراجی ممالک اور باغی اجر ہیں۔ اس قسم کی غلامی سے چھٹکارہ پانے کے لیے ڈاکٹر نوربخش عالمی قوانین بنانے پر زور دیتے ہیں لیکن آج عالمی قوانین بنانے اور مسلط کرنے والا ادارہ اقوام متحدہ خود سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کی شکل میں غیر جمہوری ہے۔ ان میں اگر کوئی ایک ویٹو کر دے تو قرارداد منظور نہیں ہوتی۔ ان پانچ ممالک نے پوری دنیاکو یرغمال بنا رکھا ہے جسکی وجہ سے منصفانہ قوانین کا قیام ممکن نہیں۔ اسلیے ان پانچ ممالک کی مستقل رکنیت ختم کر کے عام رکن بنایا جائے۔ غلامی کے خلاف ہمیشہ غلام کو ہی جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔ اسلیے دنیا کے تمام مظلوموں کو متحد ہو جانا چاہیے ۔ اگر مظلوم مظلوم ظلم کے خلاف کھڑے نہیں ہوں گے تو پھر وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم میں برابر کے حصہ دار ہیں۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*