افغانستان کا مطالعاتی و سفارتی دورہ (قسط 2) : قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

دورہ افغانستان کے دوسرے روز جمعرات 25 کو کابل شہر کے وسط میں رحمہ اسلامک ریلیف فنڈ کی ٹیم نے ڈیڈھ سو خاندانوں میں ریلیف پیکج تقسیم کیا۔ رحمہ کی ٹیم میں اس کے چیئرمین صغیر قمر صاحب، اس کے بانی ناروے سے منیر ملک صاحب، انکے دوست سلیمان رزاق صاحب، پروجیکٹ مینجر رحمہ ذوالقرنین انصاری صاحب نے اپنے ہاتھوں سے پیکج کی تقسیم کی۔ ہر خاندان کو کمبل اور ایک ماہ کا راشن دیا گیا۔ ملیشیا کی ایک این جی بھی آئی ہوئی تھی۔ پیکج کی تقسیم کے بعد ہیلپنگ ہینڈ افغانستان کے کنٹری ڈائریکٹر عبیداللہ فیصل نے ہمیں اپنے دفتر میں لنچ دیا۔ ہیلپنگ ہینڈ امریکہ کے مسلمانوں کی بنائی ہوئی ایک این جی او ہے جو افغانستان میں عبیداللہ فیصل صاحب کی سربراہی میں اپنی بہترین خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ رحمہ کی رہنمائی اور ٹرانسپورٹیشن کی سہولیات میں بھی اس نے بنیادی کردار ادا کیا۔ عبیداللہ فیصل اور انکے بھائی اسداللہ ہمہ وقت دستیاب رہے جبکہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے عزیر بھائی پاکستان سے ہی رحمہ کی رہنمائی کے لیے ساتھ گے اور واپس آئے۔ بعد دوپہر میری درخواست پر دفتر خارجہ کے ساتھ رابطہ کیا گیا جس نے سنیچر دن کو ملاقات کا وقت دیا کیونکہ جمعہ کو وہاں چھٹی ہوتی ہے مگر سنیچر کو ہم نے جلال آباد پہنچنا تھا جہاں گورنر کے ترجمان کے ساتھ ہماری ملاقات طے تھی۔

اس طرح دفتر خارجہ کے ساتھ ملاقات منسوخ کرنا پڑی۔ جلال آباد سے طورخم نزدیک تھا اس لیے ہم واپس کابل جانے کے بجائے واپس پشاور ا گے۔ اگلے دن جمعہ کی صبح عبیداللہ فیصل اور انکے بھائی اسداللہ خان طے شدہ پروگرام کے تحت ہمارے ہوٹل میں ا گے جہاں سے وہ ہمیں صوبہ وردگ کے ایک ایسے گائوں میں لے گے جہاں ایک بار پھر رحمہ کی ٹیم نے ڈیڈھ سو خاندانوں میں فوڈ پیکج تقسیم کیا۔ یہاں ہمارا استقبال وزارت بحالیت شعبہ امور مہاجرین کے سربراہ جناب قاری عبدالمتین صاحب نے کیا۔ اس مقام پر امریکہ اور طالبان کی زبردست معرکہ آرائی ہوئی جس میں امریکہ کو تاریخی شکست ہوئی۔ جنگ کی وجہ سے یہ علاقہ بری طرح متاثر ہوا۔ وہاں دور دور تک کوئی پختہ عمارت نظر نہیں آ رہی تھی۔ کوئی سکول اور ہسپتال نہیں تھا۔ ہر طرف کچے مکانات تھے جہاں آج کے جدید دور کی کوئی سہولت نہیں تھی۔ قریب ایک قبرستان تھا جہاں ہزاروں گمنام شہداء کی قبریں تھیں۔ فوڈ پیکج کی تقسیم کے دوران بے شمار یتیم بچے ملے جنہوں نے کہا کہ انکے والدین قریبی قبرستان میں کہیں دفن ہیں۔

وہ کہہ رہے تھے ہم نے تو کسی پر حملہ نہیں کیا۔ دوسرے اتنے دور سے ا کر ہم پر کیوں حملے کرتے ہیں؟ امریکہ تو چلا گیا ہمارے شہید والدین تو واپس نہیں آئیں گے! انتہائی دالخراش منظر تھا جسے دیکھ کر میرا بلڈ پریشر تیز ہو گیا اور گولی لیینی پڑی۔ ایک ایسا مجائد بھی ملا جسکی ٹانگ ڈرون حملے میں ضائع ہوئی۔وہاں سے شعبہ مہاجرین کی بحالی کے سربراہ قاری عبدالمتین صاحب ہمیں کھانے کے لیے لے گے۔ راستے میں ایک نہر کے قریب ایک ایسی جگہ پر لے گے جہاں ایک مقامی آدمی نے درس کے لیے 8 کنال رقبہ وقف کیا۔ قریب سیبوں کا بہت بڑا باغ بھی تھا۔واپسی ہر دیکھا کہ ریگستانی علاقے سے گزرنے والی سڑک کے دائیں طرف ریت اور ٹیلے جبکہ بائیں طرف مقامی لوگوں نے اسی ریتلی زمین کو اپنی مہارت سے باغبانی میں تبدیل کر رکھا تھا۔ اس جنگ زدہ غریب ملک کی کفالت کا ایک راز یہ ہے کہ کھانے پینے کی زیادہ تر اشیاء وہ خود پیدا کرتے ہیں۔ فروٹ سبزی اور گندم کی بڑی پیداوار ہوتی یے۔ اگر یہاں امن ہو تو اس کی پیداواری قوت میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ دنیا میں افغانستان کی موجودہ حکومت کے خلاف بہت زیادہ منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہاں پر عورتوں کو بائر نکلنے کی اجازت ہے نہ تعلیم کا حق۔ اس بے بنیاد پروپگنڈہ کی اصل وجہ موجودہ حکومت کو ناکام کرنے کی گھنائونی سازش ہے۔ لوگوں کو اسیے خوف زدہ کیا جاتاہے تاکہ کوئی غیر ملکی افغانستان کا رخ نہ کرے۔ ہم نے بازاروں میں خواتین کو اسی طرح گھومتے دیکھا جس طرح پاکستان میں پٹھان خواتین گھومتی ہیں۔ یعنی کچھ خواتین اپنی مرضی سے مکمل برقع پوش ہوتی ہیں اور کچھ نے چادر سے نقاب کیا ہوتا ہے جبکہ مڈل سکول تک جو کلاسیں بحال کی گئی ہیں وہ بچیوں کے لیے بھی ییں ۔کابل کی وسیع و عریض سڑکوں اور تہزیب و تمدن کو دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہاں کوئی ایسی قوم آباد ہے جسکی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ اگر یہ کوئی کمزور اور نقالی کی عادی قوم ہوتی تو اب تک کے پےدر پے غیر ملکی حملوں کا شکار ہو کر یہ قوم اپنی تہزیب کھو بیٹھتی۔ کابل میں اداروں ، شاہراہوں، عمارتوں اور پارکوں کو دیکھ کر یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ صرف جنگجو قوم ہی نہیں بلکہ ایک صحت مندانہ کلچر بھی رکھتی ہے۔ طویل جنگوں کی سختیوں کے باوجود کابل کی سڑکوں پر چلنے والے مقامی لوگوں کی مسکراہٹ گم نہیں ہوئی۔ اپنے دورے کے آخری دن عبیداللہ فیصل اور اسداللہ کی معیت میں صبح سات بجے جب ہم کابل سے جلال آباد کی طرف نکلے تو راستے میں خدا کی خدائی دیکھی۔ بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان سے گزرنے والی سڑکیں، چشمے ندی نالے ، کھیت اور ڈیمز نظر آئے ۔ عبیداللہ فیصل کہہ رہے تھے کہ اگر یہاں امن ہو تو ہم صرف اپنے لیے نہیں بلکہ پڑوسیوں کے لیے بھی بجلی پیدا کر سکتے ہیں اور انڈسٹری بھی لگا سکتے ہیں اور قدرتی وسائل سے استفادہ بھی۔ کابل اور جلال آباد کی سرحد پر ایک ایسی ننگہار یونیورسٹی قائم ہے جو 8 کلو میٹر کی ڈرائیو کے بعد ختم ہوتی ہے۔ جلال آباد میں صوبائی گورنر کے ساتھ جب ہماری ملاقات ہوئی تو میں نے گورنر کے ترجمان نور محمد حنیف صاحب سے پوچھا کہ آپ کی عسکریت تو قابل فہم ہے لیکن جب طالبان فاتح کی حیثیت سے کابل میں داخل ہو کر دنیا سے مخاطب ہوئے تو ہم نے دیکھ کہ طالبان بہترین مقرر، سیاستدان اور سفارتکار بھی ہیں۔ بیس سال پہاڑوں میں رہ کر یہ مہارت آپ نے کہاں سے سیکھی؟ نوجوان نور محمد مسکرائے اور کہا کہ طالبان نے ایک شیڈو گورنمنٹ قائم کی ہوئی تھی جس کے تمام شعبہ جات اپنے اپنے طور پر کام کر رہے تھے۔ اسلامی نظام حکومت پر درس و تدریس اور تعلیم و تربیت پر کام کرنے والے ماہرین تھے۔ موجودہ حکومت کی مشکلات تو بہت ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اس کا عزم مشکلات پر قابو پا لے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان ممالک افغانستان کی موجودہ حکومت کو تسلیم کرنے میں پہل کریں اور نام نہاد جمہوریت پسند مغرب کو بھی منفی پروپیگنڈہ بند کر کے افغانستان کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع دے۔ افغانستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اسے صرف امن کی ضرورت ہے۔ امن کے بغیر کہیں بھی ترقی نہیں ہوتی ۔ مغرب نے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں سے خود یہ سبق حاصل کیا ہے تو وہ ترقی پزیر ممالک کو امن کا موقع کیوں نہیں دیتے۔ انتظامی امور بہترین چل رہے ہیں۔ افغانستان کو اسوقت سب سے پہلے تعلیمی ادارے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے ریٹائرڈ ماہرین تعلیم سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہماری اس مہم کا حصہ بن کر اس میں انسانی بنیادوں پر کردار ادا کریں۔ وقت گزر جاتا ہے اور انسانی کردار زندہ رہتے ہیں ۔ باوقار قومیں مشکل میں کام آنے والوں کو تو یاد رکھتی ہی لیکن اللہ کی خوشنودی کے لیے کسی کی مدد کرنے والوں کی محنت اللہ تعالیٰ کے ہاں کبھی ضائع نہیں جاتی۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*