افغانستان کا مطالعاتی و سفارتی دورہ (پارٹ 1) : قیوم راجہ

رپورٹ: قیوم راجہ

بے شمار لوگ سوچتے ہیں کہ نیا افغانستان کیسا ہو گا۔ ہم خوش نصیب ہیں ہم نے دیکھ بھی لیا۔ خوش نصیبوں کی یہ ٹیم پانچ افراد پر مشتمل ہے جس میں رحمہ ریلیف فنڈ کے چیئرمین محمد صغیر قمر، ناروے سے بانی رحمہ ملک منیر، انکے فرزند ملک سلیمان، پروجیکٹ مینجر ذوالقرنین انصاری بلتستان شامل ہیں۔ رحمہ انسانی بنیادوں ہر یہاں بہترین خدمات سر انجام دے رہا ہے۔ صغیر قمر ایک صحافی اور معلم بھی ہیں۔ ہم یہاں کے حالات کا انسانی بنیادوں پر جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ طالبان کی جد و جہد سے سیکھنے کی بھی کوشش کر رہے ییں۔ ایک وقت تھا کہ بہت سارے لوگ سوچتے تھے کہ طالبان بندوق برداری کے علاؤہ کچھ نہیں جانتے ۔ ریاست اگر ان کے پاس آ بھی گئی تو وہ اسے سنبھال نہیں پائیں گے۔ انکی عالمی سطح پر وکالت کون کرے گا لیکن جب طالبان فاتح کی حیثیت سے اگست میں کابل میں نمودار ہوئے تو دنیا انکی خود اعتمادی اور سیاسی و سفارتی صلاحیتوں سے زبردست متاثر ہوئی۔ کابل میں طالبان کے داخلے کے بعد سب سے بڑے زیر بحث اشوز امن و امان اور انسانی حقوق تھے جن میں اظہار رائے کی آزادی اور خواتین کے حقوق اور تعلیم نسواں تھا۔ ماہرین نفسیات قبل از وقت رائے قائم کرنے سے ہمیشہ منع کرتے ہیں۔ سچ کی تلاش کے لیے دیکھنا سننا سمجھنا اور آزمانا پہلی شرط ہے۔ انسانی دل و دماغ رکھنے والے افغانستان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان بھی نارمل زندگی گزارے اور مہاجرین اپنے گھروں کو واپس لوٹیں۔ میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو مجھے ایران کے شہر مشہد سے تحمینہ مظفری افغان خاتون شاعرہ کا واٹس اپ نوٹ ملا۔ تحمینہ نے ایران میں ایک افغان مہاجر خاندان میں 1982 میں جنم لیا۔ انہوں نے ابھی تک افغانستان نہیں دیکھا۔ ایران کے علاؤہ وہ کسی ملک کو نہیں جانتی لیکن وہ ایران میں پیدا ہونے کے باوجود ایک مہاجر کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں "میری نصف عمر گزر گئی مگر میرا کوئی گھر نہیں۔ مجھے کوئی پتہ نہیں میرے بچوں کا کیا مستقبل ہے!” ایسی لاکھوں تحمینہ ایران، پاکستان اور نہ جانے کہاں کہاں خوار ہو رہی ہیں۔ مسلمان حکمران امت مسلمہ کا ورد کرتے تھکتے نہیں لیکن ابھی تک وہ انسانوں کے پیدائشی حقوق کا تعین نہیں کر پائے جسکی وجہ سے کسی بھی اسلامی ملک میں کسی مزدور اور مہاجر کی اولاد کے شہری حقوق نہیں۔۔

ہمارا وفد بدھ 24 نومبر 2021 کو اسلام آباد سے کابل فلائی ہوا ۔ قافلے کے امیر ذوالقرنین انصاری کے علاؤہ کسی نے بھی ابھی تک نیا افغانستان نہیں دیکھا تھا لیکن سیانوں کی کہاوت کو زہہن میں رکھتے ہوئے ہم سب قبل ازوقت کوئی رائے قائم کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے کھلے زہہن کے ساتھ اپنے سفر پر نکل پڑے۔ پچاس منٹ بعد ہماراجہاز کابل کے ہوائی اڈے پر تھا۔ کابل کی کھلی کشادہ گلیاں دور سے دکھائی دے رہی تھیں۔ طالبان کہیں نظر نہیں آئے مگر انکا نظام نظر ا رہا تھا۔ آئر پورٹ عملہ کی چستی ہھرتی اور زمہ دارانہ رویہ بتا رہا تھا کہ اس ملک میں کوئی جیتا جاگتا حاکم موجود ہے۔ میزبانوں کا مہمانوں کے ساتھ رویہ انتہائی دوستانہ تھا۔ ہمیں کابل آئر پورٹ سے ہوٹل لے جانے والی ٹیم آئر پورٹ پر موجود تھی۔ کابل شہر ہر لحاظ سے عالمی معیار کا شہر نظر ا رہا تھا جس کی صفائی اور ٹریفک نظام مثالی تھا۔ جس طرح کسی انسان کا چہرہ اس کے اندر کی حالت کی نشان دہی کر دیتا ہے اسی طرح دنیا کے کسی بھی ملک میں داخل ہوتے وقت اسکی سڑکیں اس کے اندر کا حال بتا دیتی ییں۔ یہاں کسی قسم کی بے ہنگم ٹریفک نظر نہیں ائی۔ ٹریفک پولیس بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ ابھی تک کوئی فوجی نظر نہیں ایا۔ زندگی ایک نارمل شہر کی طرح رواں دواں ہے البتہ احتیاطی تدابیر نظر ا رہی ہیں جو عقلمندی کا تقاضا ہے۔ کابل شہر کے وسط میں ایک بہت بڑا پارک ہے۔ اس میں ہرے بھرے خوبصورت درخت لگے ہوئے ہیں۔عالیشان عمارات بتا رہی ہیں کہ کابل شہر چالیس سالہ جنگ سے صرف محفوظ ہی نہیں رہا بلکہ یہاں جدید تعمیر و ترقی بھی ہوئی ہے ۔ کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے اپنی آمد و رفت آسان بنانے کے لیے سڑکوں کو کافی حد تک پختہ کیا ہے۔ فی الحال تو ہم کابل شہر ہیں۔ مضافات میں جائیں گے تو بہتر اندازہ ہو سکے گا۔ ہوٹل اور ریسٹورنٹ بڑے صاف ستھرے ییں۔ یہاں مقامی لوگ سبزی دالیں کم اور گوشت زیادہ کھاتے ہیں۔ شاید اسی لیے پٹھان جفا کش اور صحت مند ہیں۔ جو کچھ بھی دستیاب ہو سلاد کے ساتھ سلیقے کے ساتھ دستر خواں سجانا پٹھانوں کا کلچر ہے۔ کابل میں مرچے مسالے کے بغیر پہلی شام کا لزیز کابلی کھانا کھا کر ہم اپنے اپنے کمرے میں چلے گے جہاں ہر ایک کہ اپنی اپنی دلچسپی ہے اور میری دلچسپی پہلے دن کی میری ڈائری مکمل کرنا یے جبکہ میری کم سن بیٹی مجھے آزاد کشمیر سے وٹس اپ کرتی ہے کہ” پاپا آپ کابل میں اگر ارتغرل نہ دیکھ پائیں تو نیٹ پر سیزن 5 قسط 54 لکھ کر دیکھ لینا۔ میری تین بیٹیاں میری بہترین مشیر ییں۔ گھر سے کہیں جانے کی تیاری کا زکر کروں تو 9 سالہ سلویہ کا پہلا سوال ہوتا ہے پاپا واپس کب آئیں گے؟ (جاری)

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*