پولیس کے فرائض مسائل و اصلاحات : قیوم راجہ

تحریر : قیوم راجہ

جبری طور پر منقسم ریاست جموں کشمیر کی وحدت کی بحالی کے لیے جد و جہد کے ساتھ ساتھ سنجیدہ آزادی پسند چاہتے ہیں کہ آزاد کشمیر مضبوط باوسائل اور باختیار ہو۔ اس کے لیے ریاستی اداروں کا مضبوط و مستحکم ہونا ضروری ہے۔ ادارے تب مضبوط ہوتے ہیں جب اس میں باصلاحیت تربیت یافتہ تجربہ کار محب وطن اور دیانتدار افسران موجود ہوں۔ اس سے قبل میں نے تعلیم اور صحت پر بہت کچھ لکھا ہے اسکا حکام بالا ہر کتنا اثر ہوا ہے یہ انکے ظرف اور زمہ دارانہ رویے پر منحصر ہے ۔ آج میرا موضوع آزاد کشمیر پولیس ہے۔ آزاد کشمیر پولیس کے سربراہ پاکستان کے لینٹ آئی جی ہوتے ہیں جبکہ آزاد کشمیر کے تین ڈویژن مظفرآباد پونچھ اور میرپور کے انچارج ڈی آئی جی ہیں۔ مظفرآباد میں قائم ریزرو پولیس کا ہیڈ کوارٹر ہے اسکا سربراہ بھی ڈی آئی جی ہوتا ہے ۔ اس وقت اس کے ڈی آئی جی کھوئیرٹہ سے ہماری اپنی فیملی کے ایک نوجوان افسر راجہ شہریار سکندر ہیں جنہوں نے لاہور سے گریجویشن، اسلام آباد سے ماسٹر اور یو کے سے پولیٹیکل سائنس سیکورٹی اور پولیسنگ میں ایم ایس سی کیا ۔ اسی طرح دوسرے افسران بھی اعلی تعلیم یافتہ مستعد اور متاثرکن پروفیشنل اور سوشل سکلز کے مالک ہیں۔ پونچھ سیکٹر کے ڈی آئی جی راشد نعیم اور میرپور کے چوہدری سجاد حسین ہیں۔ راشد نعیم کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور سجاد حسین کے ساتھ وٹس اپ ہر تبادلہ خیال رہا اور سابق ڈی آئی جی سردار گلفراز خان کے ساتھ بھی کافی شناسائی تھی جنہوں نے ہماری تجویز پر کچھ اصلاحی اقدامات اٹھائے تھے۔اس کے علاؤہ ایس پی راجہ عرفان سلیم ، ایس پی میر عابد ، ایس پی راجہ اکمل خان، ایس پی چوہدری محمد امین ، ایس پی مرزا شوکت اور کئی اور افسران کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ عرصہ دراز سے یہ سوال میرے زہہن میں گردش کر رہا تھا کہ یہ ڈی آئی جیز اور ایس پیز نوجوان اعلی تعلیم یافتہ اور باصلاحیت ہیں۔ ان ہر بد دیانتی کا بھی کبھی کوئی الزام نہیں لگا ۔ ماضی کی نسبت نوجوان افسران تک عوام کی رسائی بھی قدر آسان ہے بلکہ آئی جی پی خود بھی آن لائن شکایات سنتے ہیں۔ اس کے باوجود تھانے نجی ادارے کیوں لگتے ہیں جہاں عوام کو بھی اپنے اخراجات پر تفتیش کروانی پڑتی ہے۔ حکمران طبقے کے کام تو چھٹی کے وقت بھی ہو جاتے ہیں لیکن عام شہری کو دوران ڈیوٹی بھی ٹال دیا جاتاہے جسکی وجہ سے عام شہریوں کو سفارش کا سہارا لینا پڑتا ہے یا پھر "مک مکا” کرنا پڑتا ہے۔ جو بااصول انسان ایسا نہیں کرنا چاہتا اسے چھوٹے سے چھوٹا کام کروانے کے لیے صبر آزما جد و جہد کرنی پڑتی ہے جسکی وجہ سے پولیس اور شہریوں کے درمیان جہاں تعلقات متاثر ہوتے ہیں وہاں پولیس کا وقار بھی مجروح ہوتا ہے۔ مختلف پولیس افسران کے ساتھ گفتگو کے علاؤہ میں نے اپنے تجربات و مشاہدات سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ پولیس سٹرکچر، ایڈمنسٹریشن، ہمارا معاشرہ اور پولیس کی مالی قوت یا بجٹ کی غیر متوازن تقسیم اکثر مسائل کے اسباب ییں۔ اب آئیے کچھ تفصیلات کی طرف۔

باقی اداروں کی طرح پولیس سٹرکچر بھی وہی ہے جو انگریزوں نے قائم کیا تھا جسکا مقصد غلامی کو مضبوط کرنا تھا نہ کہ تحقیق و تخلیق کو جس کے بغیر معاشرے ترقی نہیں کرتے۔ پاکستان آزاد تو ہو گیا مگر ابھی تک وہ اپنا نظام نہیں بناسکا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان دن بدن انگریز پرست بنتا جا رہا ہے جسکی بڑی مثال اس کا غیر ملکی تعلیمی نصاب ہے۔ پاکستانی اور آزاد کشمیر کے سیاستدانوں کا اداروں کے ساتھ وہی رویہ ہے جو انگریز آقا کا برصغیر میں اداروں کے ساتھ تھا جنکے قیام کا واحد مقصد اپنی حاکمیت قائم کرنا تھا۔ پولیس سٹرکچر سے مراد کا نسٹیبل ، ہیڈ کانسٹیبل، اے ایس ائی، اے ایس پی ایس پی، ڈی آئی جی اور آئی جی ہیں۔ سیاسی مداخلت کی وجہ سے پولیس افسران کا پیرامیٹر قائم رہتا ہے نہ قانون کی عملداری۔ بعض اوقات قتل پر بھی پولیس خاموش ہوتی ہے جسکی کئی مثالیں الیکشن میں ہونے والے قتل ییں۔ کہا جاتاہے کہ کئی درخواستیں جھوٹی ہوتی ہیں اور لوگ ایک دوسرے کو تنگ کرنے کے لیے جھوٹی درخواستیں دے دیتے ہیں لیکن پولیس جہاں برے لوگوں کو جانتی ہے وہاں اچھوں کو بھی تو جانتی ہو گی۔ دوسرا یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ اگر سیٹ پر ایک اچھا افسر بیٹھا ہے تو درخواستیں روٹین ٹوکری میں جمع کروانے کے بجائے متعلقہ سٹاف کو بلا کر اسی وقت ان ہر عمل درآمد کا حکم دیتا ہے دوسری طرف بعض کیسوں کے شوائد بالکل سامنے ہوتے ہیں لیکن انچارج کی عدم دلچسپی کے باعث فائل غائب ہو جاتی ہے۔ مانا کہ سیاسی ٹھیکیدار بھی ایک مسلہ ہیں لیکن ان ٹھیکیداروں کی ٹھیکیداری بھی تو پولیس پزیرائی ہر چلتی ہے۔ بدمعاش بھی ہر معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن بد معاشی کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ بد معاش حقیقت میں دلیر نہیں بزدل ہوتے ہیں جن کی بد معاشی زیادہ تر حکام بالا کی پشت پناہی سے چلتی ہے ورنہ وہ میدان کے شہسوار نہیں ہوتے۔ یہ بات درست ہے کہ تھانیدار کی فنانشل پاور اتنی نہیں ہوتی کہ وہ ہر کیس کی تفتیش سرکاری اخراجات پر کرا سکے جبکہ ایس پی کی فنانشل پاور بھی غیر تسلی بخش ہے مگر لوگ سوال کرتے ہیں کہ پولیس غیر ضروری سیاسی پروٹوکول کے لیے اخراجات کیسے پورے کرتی ہے۔ ولیمے کھانا جنازے پڑھنا اور سیاسی تقریبات سیاستدانوں کا ذاتی مسلہ ہوتا ہے نہ کہ ریاست یا عوام کا مگر پولیس اکثر سیاستدانوں کی ذاتی سرگرمیوں میں ان کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف و اصول ہے کہ ایک مظلوم اپنے اخراجات پر تحقیقات کروائے اور وزیر اور اسکا خاندان سرکاری اخراجات پر ولیموں میں شرکت اور شاپنگ کرے۔ ایک بات برحال ناقابل تردید ہے کہ ہم سب اسی معاشرے کی پیداوار ہیں۔ اس کی اصلاح کے لیے ہر ایک نے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ بہتری کے لیے ظاہر سے زیادہ باطن پر توجہ دینی پڑے گی اور دوسروں سے پہلے اپنی اصلاح کرنی پڑے گی جس کا آغاز اپنی ذات گھر اور تعلیمی اداروں سے شروع ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اندر جھانکنے اور اس عارضی زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے کی توفیق دے اور صاحب منصب کو اپنامنصب ملک معاشرے اور انسانیت کی خدمت و بہتری کے لیے استعمال کرنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے آمین۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*