پانی کو ترستی بلوچستان کی زمینیں : ابوعکراش

تحریر : ابوعکراش

کہا جاتا ہے کہ پانی ہی زندگی ہے ، پانی کے بغیر زندگی ڈگمگا جاتی ہے ، یہ تمام مقولات اپنی جگہ برحق ہیں مگر بلوچستان کے حالات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ بلوچستان کے باسی پانی کو ترس رہے ہیں یہاں کوئی ایسا انتظام نہیں جہاں یہ کہا جا سکے کہ پانی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے ، بلوچستان میں لوگوں کو وافر مقدار کا بھی علم نہیں کہ یہ "وافر” کس بلا کا نام ہے ، یہاں تو تالابوں جوہڑوں میں بارش سے جمع ہونے والے پانی کو بھی وافر مقدار سمجھا جاتا ہے جو بمشکل ایک مہینے تک صرف پینے کے لئے میسر ہوتا ہے ۔ یہ تالاب بھی کوئی صاف شفاف نہیں ہوتے ان تالابوں میں انسان اور جانور ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ ان حالات میں آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلوچستان کی زمینوں کو کتنا پانی نصیب ہوتا ہے۔

میرے والد صاحب اپنا ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چند دوست مردم شماری کے سلسلے میں اپنے ہی ضلع جھل مگسی کے کسی گاؤں میں گئے چونکہ گرمی کا موسم تھا تو سب سے پہلے ہمیں پانی پیش کیا گیا ، میزبان جس جگ میں پانی لایا تھا وہ شیشے کا تھا ہمیں پانی کا سبز رنگ صاف دکھائی دے رہا تھا، پہلے تو ہم خوش ہوئے کہ چلو اس گرم موسم میں پانی کی جگہ ہمیں شربت پلایا جا رہا ہے ، مگر گلاس جس دوست کے ہاتھ میں جاتا تو منہ سے ہو کر فوراً واپس آجاتا ، میں حیران تھا کہ اس گرم موسم میں دوستوں کو شربت کیوں پسند نہیں آرہا جب میری باری آئی تو یہ عقدہ کھلا کہ یہ کوئی شربت نہیں بلکہ سبز رنگ کا پانی ہے جو جوہڑ میں زیادہ ٹھہرنے کی وجہ سے اپنا رنگ تبدیل کرچکا ہے ۔ اس پانی میں عجیب و غریب قسم کی بدبو تھی .

یہ حال ہے بلوچستان کے باسیوں کے پینے کے پانی کا ، تو آپ خود اندازہ لگائیں کہ یہاں زراعت کے لئے کتنا پانی میسر ہوگا ، نہری نظام یہاں سرے سے موجود ہی نہیں ہے ، جہاں موجود ہے تو وہاں پانی نہیں چھوڑا جاتا ، حالیہ نصیر آباد کے لوگوں کا پانی کے معاملے میں احتجاج اس بات کی واضح دلیل ہے ، پہلے سے بے حال لوگوں کا لاکھوں میں نقصان ہوچکا ہے ، جو تھوڑا بہت پانی نہروں میں آرہا تھا وہ وڈیروں اور طاقت وروں نے روک لیا۔ اب بچارے کاشتکار روڈوں پہ روتے پھر رہے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں ، بارش یہاں کاشتکاری کا واحد ذریعہ ہے، جب بارش ہوتی ہے تو یہاں کے بیابان صحرا جھوم اٹھتے ہیں،سال بھر دھول مٹی اڑاتی زمینیں سیراب ہوتی ہیں ، مگر دو چار مہینوں بعد وہی پرانا دور لوٹ آتا ہے۔

بارش کے پانی کو جمع کرنے کا تو بلوچستان میں کسی نے سوچا بھی نہیں ، جتنی حکومتیں آئی ہیں بجٹ کی کمی کا رونا روتے ہوئے رخصت ہوجاتی ہیں کسی نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی ، اگر ہونے والی بارشوں کے پانی کو جمع کرنے کا تھوڑا بہت بھی انتظام ہوتا تو کافی حد تک بلوچستان کے پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا تھا ، بلوچستان کا بہت سارا رقبہ پہاڑی علاقوں پہ مشتمل ہے ان پہاڑی دروں پہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنا دیئے جاتے تو آج جو زمینیں ویران پڑی ہیں وہ آباد ہوتی ، اس کا فایدہ ایک تو مقامی طور پہ بہت زیادہ ہوتا دوسرا ملکی معیشت کو بھی سہارا مل جاتا،
مگر افسوس کہ یہ بارشوں کا پانی جمع ہونے کے بجائے سیلاب کی صورت اختیار کئے بہت سے گھر بہا لے جاتا ہے ۔

میرا خیال تو یہاں تک ہے کہ بلوچستان کے بہت سارے لوگ صرف اس وجہ سے روڈوں پہ کھڑے ہو کر مسافروں کو لوٹتے ہیں کہ انہیں روزگار کے مواقع ہی نہیں ، اگر پانی ہوتا اور ان کی ویران پڑی زمینیں آباد ہوتی تو انہیں فرست ہی نہیں ملتی کہ وہ روڈ پہ کھڑے ہو کر مسافروں کو لوٹیں یا پھر ڈاکو بنیں۔
اسی بنیاد پہ اپنا تجربہ شیئر کر رہا ہوں کہ میں اپنے گھر سے ساٹھ کلومیٹر دور پڑھاتا ہوں اور پورا راستہ تقریباً بارشوں کے پانی سے آباد ہوتا ہے ، جس سال بارشیں ہوتی ہیں تو پورے راستے پہ امن رہتا ہے اور جس سال بارشیں نہ ہوں تو لوٹ مار کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
بس گزارش صرف اتنی سی ہے کہ نہری نظام اگر بلوچستان میں نہیں آسکتا تو نہ آئے ، حکومت ڈیم بنانے پہ توجہ دے ، بہت سارے بلوچستان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*