حضرت خواجہ الشامحمد رکن الدین الوری

تحریر: حضرت علامہ ڈاکٹرصاحبزادہ ابوالخیرمحمدزبیرمدظلہ العالی
(رئیس رکن الاسلام جامعہ مجددیہ حیدرآباد ، سجادہ نشین آستانہ عالیہ رکنویہ محمودیہ)

بہارآرائے چمنستان رکنوی،مستجمع کمالات صدری ومعنوی،جامع فضائل ظاہروباطنی،حاوی علوم معقولی ومنقولی، جگرگوشہ وسجادہ نشین شاہ رکن الدین ،حضرت شاہ محمد محمودالوری مدظلہ العالی ،جن کے دم قدم سے اس سجادہ کی رونقیں آبادہیں،جن کے وجودسے اس گلشن کی رعنائیوں اور جمال آرائیوں پہ نکھار ہے۔آپ نے 5ذی الحجہ 1322ئھ 1904ءء شب جمعة المبارک کوعشق ومحبت کی کوکھ میں جنم لیا اور علم وعرفان کی گودمیں پرورش پائی ،ہدایة النحوتک عربی کی ابتدائی تعلیم اپنے والدگرامی اورمرشدنامی حضرت شاہ رکن الدین الوری رحمة اللہ علیہ سے اور گلستان بوستان تک فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے جدامجد حضرت مولانا فریدالدین صاحب رحمة اللہ علیہ سے حاصل کی ،جس کی ابتداء ان کاملین کے ہاتھوں ہوئی ہو،اس کی علمی قابلیت کاکیاکہنا… اعلیٰ تعلیم کیلئے آپ نے دوسرے شہروں کارخ کیا چنانچہ سب سے پہلے آپ اجمیر شریف گئے وہاں مدرسہ معینیہ عثمانیہ میں قطبی،شرح جامی،اورشافعیہ وغیرہ کتب پڑھیں لیکن یہاں حضرت کادل نہیں لگا،آخروالد گرامی کے ارشاد پر دہلی پہنچے ،یہاں پرمدرسہ عالیہ فتح پوری میں مولانابرکات احمدٹونکی کے نامورشاگرد مولانا عبدالرحمن صاحب جن کے پاس معقول کی بڑی بڑی کتابوں کے اسباق ہوتے تھے انہوں نے مفتی اعظم حضرت شاہ محمدمظہراللہ صاحب رحمة اللہ علیہ سے خصوصی مراسم کے باعث ان کے کہنے پر حضرت کومنطق کی ابتداء کرائی ،چنانچہ حضرت نے ان سے منطق میں صغرٰی،کبرٰی ،مرقات، شرح تہذیب،میرقطبی اورفلسفہ میں ہدیہ سعیدیہ تک پڑھا، اس کے علاوہ دوسرے اساتذہ سے دیگرعلوم عربیہ میں شرح جامی ،شرح وقایہ اورمختصر المعانی وغیرہ کادرس لیااس کے بعدحضرت قبلہ نے بھوپال کی علمی فضاؤں سے کیف یاب ہونے کاارادہ کیا چنانچہ وہاں مدرسہ احمدیہ میں مولانا محمدحسن صاحب جومولوی رشیداحمدگنگوہی کے تلمیذ رشید تھے ان سے کتب احادیث مشکٰوة،جامع ترمذی ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ پڑھیں ،یہاں سے مدرسہ معینیہ عثمانیہ اجمیر کی علمی رو نقوں اورآستانہ سلطان الہند کی چشتیہ نسبتوں نے پھرآپ کواپنی طرف کھینچنا شروع کیا چنانچہ یہ کشش آپ کوکشاں کشاں ”اجمیر“ لے آئی،یہاں آپ نے بڑے بڑے اسباق مثلااصول فقہ ،نورالانوار،حسامی،تلویح علی التوضیح،علم کلام میں شرح عقائد مع خیالی، ادب میں سبعہ معلقات ،مقامات حریری اوردیوان متنبی،تفسیر میں مدارک اورجلالین حدیث میں پھر دوبارہ صحاح ستہ ،منطق میں رسالہ میرزاہدملاجلال،ملاحسن حمداللہ اورقاضی ،ریاضی میں اقلیدس تصریح، الغرض علوم دینیہ میں تکمیل کی فیروز مندیوں سے شادکام ہوئے اور 1345ئھ ،1926ءء کوسندتکمیل حاصل کی جس پرمندرجہ ذیل حضرات اساتذہ کرام اور منتظم ومہتمم علمائے عظام کے دستخط موجودہیں:
۱: حضرت مولاناابوالعلی محمدامجدعلی صاحب الاعظمی ،صدرمدرس مدرسہ معینیہ عثمانیہ۔
۲: حضرت مولانا عبدالحی صاحب شاگردرشید مولانا برکات احمد صاحب ٹونکی۔
۳: حضرت مولانا ابوالاعجاز امتیازاحمد انصاری،مدرس دارالعلوم ہٰذا۔
۴: حضرت مولانا محمدعبدالمجید صاحب ،صاحبزادہ اعلیٰ حضرت مسعودشاہ صاحب مدرس دارالعلوم ہٰذا۔
۵: حضرت مولانا محمدیونس صاحب منتظم درگاہ دارالعلوم ہٰذا۔
۶: حضرت مولانا سیدنثاراحمد صاحب متولی درگاہ شریف ومعتمد صدرمجلس دارالعلوم اس کے علاوہ حضرت مفتی اعظم ہند شاہ محمدمظہراللہ صاحب جوحضرت کے خسر بھی تھے ان سے آپ نے علم فرائض اورعلم توقیت کی تحصیل فرمائی اوراس میں کمال حاصل کیا،چنانچہ ہرسال رمضان المبارک کے موقعہ پر نقشہ سحروافطارآپ شائع فرماتے ہیں کسی جنتری وغیرہ سے نقل کرکے نہیں بلکہ خود علم توقیت کی روشنی میں استخراج فرماکرشائع کرتے ہیں۔
شفقت اساتذہ: اجمیرکے زمانہ طالب علمی کاایک واقعہ حضرت قبلہ سناتے ہیں کہ ایک روز حضرت مولانا امجدعلی صاحب کے پاس ہدایہ کادرس ہورہاتھا چندساتھیوں نے حضرت مولانا سے کچھ استفسارات کیے اور اس میں کافی دیرلگادی جب وہ اپنی تسلی کرچکے تھے تومیرے ذہن میں بھی ایک خدشہ تھا،میں بھی استفسار کرکے اپنی تسلی کرناچاہتاتھاکہ انہیں ساتھیوں نے غصہ سے کہا کہ بہت دیرہوگئی ہے آگے چلو ،اب رہنے دو، حضرت مولانا نے بھی کثرت رائے سے مجبورہوکر میراجواب دیئے بغیر آگے سبق پڑھانا شروع کردیا ،مجھے طلبہ کے اس رویہ کا بڑادکھ پہنچا کہ انہوں نے اپنی توتسلی کرلی اور جب میراوقت آیاتوشورشرابا مچاکرآگے چل دیئے،رنجیدہ ہو کرخاموش بیٹھ گیا،حضرت مولانا کواپنی جماعت کے ایک شگفتہ مزاج اورہونہار شاگردکی افسردگی اوراداسی کب گواراہوسکتی تھی ،تھوڑی دیربے دلی سے پڑھایا کیونکہ دھیان اسی طرف لگاہواتھا آخردل کے ہاتھوں مجبورہوکر کتاب بندفرمادی اوربڑے پیاربھرے لہجہ میں فرمایامولوی محمود! تم شوق سے پوچھو اگرنہ پوچھوگے توہم بھی نہیں پڑھائیں گے۔اللہ اللہ! اپنے لاڈلے شاگردوں کی کیسی دلدادیاں ہوتی تھیں ،اب ایسے فرحت بخش اور سرورانگیز نظارے کہاں؟
طب وحکمت: علوم دینیہ سے فراغت کے بعدتحصیل طب کاشوق دامنگیر ہوا،فضل ایزدی تھا کہ جس طرح علوم دینیہ کے لئے مقتدر اساتذہ وقت میسرآئے ،اس ہی طرح علم حکمت بھی اپنے وقت کے مشاہیر حکماء واطباء سے حاصل ہوا چنانچہ دہلی میں حکیم جمیل الدین صاحب جو بانی طبیہ کالج دہلی،حکیم عبدالمجید صاحب کے شاگرد رشید اورمسیح الملک جناب حکیم اجمل خاں صاحب کے استادمحترم تھے،ان کی خدمت میں حاضرہوکر طب کی ادق اور اعلیٰ کتب مثلا شرح الموجز،شرح الاسباب والعلامات،للعلامہ النفیس ،القانون،للشیخ الرئیس بوعلی سینا وغیرہ کا سبقاًسبقاًدرس لیا اور25شعبان المعظم 1351ئھ ،1932ءء کوان کی دستخط شدہ سندتکمیل حاصل کی۔ لیکن فن طبابت صرف پڑھنے سے حاصل نہیں ہوجاتابلکہ اس کیلئے کسی ماہر استادکی زیرنگرانی عملی مشق اورتجربہ کی ضرورت ہوتی ہے ،اس کیلئے پھراللہ تعالیٰ نے حضرت کوایک کامل اور شفیق استادعطافرمائے یعنی حکیم محمدظفرخان صاحب جوآسمان شہرت میں افق طبابت پرکوکب تابندہ بن کرچمک رہے تھے۔حکیم اجمل خاں صاحب کے شاگرد اوررشتہ میں ان کے بھتیجے تھے اورطبیہ کالج دہلی کے آنریزی پرنسپل تھے، ان کی خدمت میں رہ کرتجویز وتشخیص اورنسخہ نویسی وغیرہ پرکامل عبورحاصل کیااور 12ربیع الاول 1352ئھ 1933 /ءء کواس حکیم وقت اورطبیب زماں کی دستخط شدہ سندفراغت حاصل کرکے فائزالمرام ہوئے ۔اس کے بعد آپ نے اس کی پریکٹس شروع کی لیکن اس کوآپ نے پیشہ کے طورپرکبھی نہیں اپنایا،باقاعدہ مرکب یامفردادویات آپ نے اپنے پاس نہیں رکھیں بلکہ صرف تجویزشدہ وتشخیص اورتحریر نسخہ تک اس کومحدود رکھا۔ہندوستان سے لیکر یہاں تک اس 20,25سال کے عرصہ میں لاکھوں بندگان خدا آپ کے تحریرکردہ نسخوں کو استعمال کرکے شفاحاصل کرچکے ہیں اورتعجب کامقام یہ ہے کہ اس تجویز وتشخیص پرآپ نے آج تک کسی سے ایک پائی نہیں لی حتی کہ بعض چھوٹے چھوٹے چٹکلے آپ نے بناکررکھے ہوئے ہیں وہ بھی عوام میں مفت تقسیم فرماتے ہیں کبھی اس پربھی کسی سے کوئی معاوضہ طلب نہیں فرمایا۔یہ اسی استغناء وبے نیازی ،تقوٰی وپرہیزگاری کی تاثیرتھی کہ جو اس درپر آیاوہ شفاپاکرگیا۔1968ءء میں حکومت پاکستان کی طرف سے اطباء کی رجسٹریشن کی اسکیم شروع کی گئی تواطباء کاایک بورڈ انٹرویوز کیلئے حیدرآباد بھی آیا، حضرت قانون کااحترام فرماتے ہوئے خوداس بورڈ کے سامنے تشریف لے گئے جب آپ کودیکھا تو تمام اراکین بورڈتعظیماًکھڑے ہوگئے اور کہاکہ ہم توخود آپ کی خدمت میں حاضرہورہے تھے آپ نے خواہ مخواہ تکلیف فرمائی،الغرض ترویج فن طب کے متعلق گفتگو کرنے کے بعد آپ کوعزت وتکریم سے رخصت کیا اور28فروری 1968ءء ،ذیقعدہ1387ئھ کواے گریڈ کاسرٹیفکیٹ آپ کوارسال کیاگیا۔
علم سفینہ وعلم سینہ: 20,25سال علوم ظاہریہ کے کوچہ وبازار کی سیرکے بعد یہ علم کاشیدائی جب واپس اپنے وطن الورپہنچتاہے تواس کوچہٴ علم کی رنگینیاں اس کے دل ودماغ پراس طرح چھائی ہوتی ہیں کہ وہ رات دن کتابوں کے مطالعہ میں محورہتاہے ،یمین وشمال کی طرف التفات کی بھی اس کوفرصت نہیں ہوتی،حتی کہ دماغ پران علوم ظاہریہ کا ایساخمار چھایاکہ برابر کاکمرہ مرشد کامل اورقطب وقت کے عارفانہ کلام کے باعث معرفت وحقیقت کی کرنوں سے ضوریز وضیاء بار ہوتاتھا اوریہ اس سے بھی بے نیاز اپنی کتابوں کی دنیامیں مگن رہاکرتے تھے اوران کابھی کیا قصور؟ جس نے اس مئے معرفت کامزہ چکھاہی نہ ہو اسے ان چیزوں کی طرف کیارغبت؟ #
لطف مے تجھ سے کیاکہوں زاہد!
ہائے کمبخت تونے پی ہی نہیں!
ایک روز اس مرشدکریم کوا س لذت سے ناآشنا اپنے اس لخت جگر اورنورنظر کی اصلاح کاخیال آہی گیا ،اچانک ان کے کمرہ میں تشریف لائے اور بڑے دردانگیز لہجے میں فرمایا ۔”میاں… !علم دوقسم کے ہوتے ہیں ،ایک علم سفینہ اورایک علم سینہ ،تم نے علم سفینہ (کتابی علم) توحاصل کرلیامگر یادرکھو علم سینہ کتابوں سے نہیں ملتا،یہ صحبت اہل اللہ سے حاصل ہوتاہے“یہ کلمات ”ازدل خیزد بردریزد“ کے مصداق دل سے نکلے اوردل ہی میں اترتے چلے گئے،صحبت کی برکتوں اورمعیت کی نسبتوں کوچھوڑکر کتابوں میں ہروقت غرق رہنے والے کوآخر یہ احساس ہوہی گیا کہ یہ کتابیں ہروقت میرے پاس رہیں گی جب چاہوں گاان سے فیض حاصل کرلوں گا لیکن اگریہ عارف کامل اورمرشد فاضل نہ رہاتوپھر صحبت کے فیوضات وبرکات کہاں ملیں گے۔
نمازفرض خدارا قضابودلیکن نمازصحبت ماراقضا نخواہد بود
آخرسب کچھ چھوڑااور مئے معرفت کامزاچکھنے کیلئے اس ”میخانہٴ وحدت“ میں حاضرہوگئے ،علوم ظاہری کی روشن دماغیوں کے ساتھ جب اس علم باطن کی فراوانیوں کودیکھا توآنکھیں کھل گئیں اورپھرپتہ چلا کہ ان علوم کی دنیاسے آگے اورجہاں بھی آبادہے۔ #
ستاروں سے آگے جہاں اوربھی ہیں! ابھی عشق کے امتحاں اوربھی ہیں!
پھرتواس جہان نوکی کیف بار فضاؤں نے ایساگرویدہ کیاکہ آپ ہمہ تن اس طرف متوجہ ہوگئے،حضرت سے اس علم باطن کی چند کتابیں مثلاً مکتوبات امام ربانی،اورشحات وغیرہ سبقاً پڑھیں اورحتی الامکان صحبت کاکوئی زریں لمحہ ہاتھ سے نہ جانے دیا اورحضرت صاحب کی فیض صحبت سے لذت یاب ہونے اور حضرت کے زیرسایہ روحانی تربیت پانے کے بعد اس علم میں بھی کمال کی حدوں کوچھوا۔
اجازت وخلاف: 18شوال المکرم کوحضرت نے باوجودضعف وتوانائی کے خوداپنے دست مبارک سے اجازت نامہ تحریرفرمایااور 20شوال المکرم کومخالف ،موافق سب کوجمع کرنے کاحکم دے دیا چنانچہ20تاریخ کی وہ ساعت دل افروزآپہنچی جب تمام محبین ومخلصین ،مخالفین ،معاندین سب جمع ہوگئے،سب سے پہلے حضرت نے ان مختلف تبرکات کی زیارت کا حکم دیاجو آپ کے پاس برسوں سے موجودتھے،زیارت سے فارغ ہونے کے بعدآپ نے اپنی نحیف آوازمیں ایک مختصرسی تقریرفرمائی جس کے اخیرمیں فرمایا”اسی طرح چلاآرہاتھا کہ سلف اٹھتے جاتے ہیں اورپچھلے ان کے قائم مقام ہوجاتے ہیں“ہم بھی اس دنیاسے جارہے ہیں اوراپنی جگہ مولوی محمود سلمہ کواپناجانشین بناتے ہیں ،ہم کوجوکچھ ہمارے پیروں سے ملاوہ سب ہم نے مولوی محمودکودیا۔راویوں کابیان ہے کہ حضرت کی زندگی کی یہ وہ آخری مگر اس قدرنسبت سے پراورکیف وسرورسے معمورمحفل تھی کہ ہرایک کی آنکھوں میں اشکوں کاسیل بیکراں اورزبان پرذکریزداں تھا،دل عشق ومحبت سے آتش بداماں اورپورا ماحول نورکی تجلیات سے ضوفشاں تھا۔الغرض اس نوربرساتی اورنکہتیں لٹاتی فضاء میں حضرت صاحب نے اعلیٰ حضرت شاہ محمدمسعود صاحب رحمة اللہ علیہ کاوہ صافہ جو انہوں نے حضرت کوخلافت کے وقت عطا فرمایاتھا وہ اعلیٰ حضرت کے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالمجید صاحب جواس محفل میں موجودتھے ان کودیاتاکہ وہ اپنے مبارک ہاتھوں سے حضرت شاہ محمد محمودصاحب کے سرپرباندھیں ،ان کے باندھنے کے بعداپنے ہاتھوں سے خرقہ پہنایا اوروہ اجازت نامہ جواپنے دست مبارک سے تحریرکرلیاتھا وہ مرحمت فرمایا #
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیازکرے نیازمند نہ کیوں عاجزی پہ نازکرے
پھرحضرت قبلہ شاہ محمدمحمودصاحب کی طرف متوجہ ہوکے فرمایا کہ تم ماشاء اللہ خودعالم ہو اس لئے تمہیں نصیحت لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ،تمہاراعلم ہرجگہ خودتمہاری رہبری کرے گا۔اللہ تعالیٰ کی معیت اپنے ساتھ رکھنا،تعویذوں کی جوہماری بیاض ہے اس کی بھی ہم تم کواجازت دیتے ہیں اس کے علاوہ جہاں کہیں سے تم کوملے اسے لے لینا لیکن اس کواپنے پیروں کی طرف سے سمجھنا ،یہ فقیرکی آخری شب ہے فاتحہ میں ہمیں یادرکھنا ہماری قبرمیں حضرت مجددالف ثانی رحمة اللہ علیہ کے مزارپرانوار کی خاک جوہمارے پاس ہے وہ ڈال دینااور اپناعلاقہ ذات بحت سے قائم رکھنا۔
حضرت صاحب کے خرقہ خلافت عطافرمانے کے بعدسب سے پہلے جس ذات نے اس فیصلہ کوتسلیم کرتے ہوئے اوراس اقدام کوسراہتے ہوئے دستوراسلاف کے مطابق جانشین حضرت والاکونذر گزاری وہ مفتی اعظم شاہ محمدمظہراللہ صاحب رحمة اللہ علیہ کی ذات اقدس تھی ا سکے بعدپھر تمام حاضرین محفل نے سرتسلیم خم کرتے ہوئے خلوص بھرے نذرانے پیش کئے۔اسی دن شام کوعبدالحفیظ غوری صاحب دواشخاص کوحلقہ ارادت میں داخل کرانے کیلئے احمدآباد سے لائے۔حضرت صاحب نے خودبیعت نہیں فرمایابلکہ ایک شخص کوحضرت شاہ محمدمظہراللہ صاحب کی طرف بھیجا اوردوسرے شخص یعنی عثمان بھائی کوحضرت شاہ محمدمحمودصاحب کی طرف رجوع کرایااور فرمایاہمارے سامنے آپ دونوں حضرات بسم اللہ کریں ۔توگویا اپنے مبارک ہاتھوں سے ان فیض کے چشموں کاافتتاح بھی فرمادیا اوراپنی آنکھوں سے ان کے لگائے ہوئے دونوں پودوں کو”ثمرآور“ ہوتابھی دیکھ لیا۔حضرات اولیاء کرام کے ارشاد پرانواروتجلیات سے معمورفضاء میں ناتوانی کے باعث کانپتے ہوئے ہاتھوں سے جوآخری تحریراس دنیامیں حضرت کے قلم سے نکلی یعنی وہ تاریخی خلافت نامہ جوحضرت نے اپنے صاحبزادہ اوراس آستانہ اورسجادہ کے رکھوالے کو عطافرمایا ۔

اخلاق وصفات: اللہ تعالیٰ نے آپ کوکمال اخلاق اور جمال صفات کی بیکراں وسعتوں سے نوازاہے ،اجمالاً اس موقعہ پر صرف یہ کہہ دیناکافی ہے کہ آپ اپنے والدمحترم اورمرشد معظم کی سیرت وکرداراورصورت وگفتار کے مظہراتم ہیں ،حضرت صاحب رحمة اللہ علیہ کی جتنی صفات اورعادات تھیں وہ تمام ہمیں اس لائق اورفائق جانشین میں جلوہ گر نظرآتی ہیں اورکیوں نہ ہوں جس ولی کامل اورقطب الاقطاب کی چندلمحوں کی صحبت نے ان پڑھ اورجاہلوں کووقت کاعارف بنادیاجس کی ایک ساعت کی معیت نے بدکرداروں کواخلاق مصطفٰے ﷺ کے زیورسے آراستہ وپیراستہ کردیا،اس کے ساتھ زندگی کی اکثرساعتیں گزارنے والا،اس کی اکثر محفلوں اور مجلسوں کے مزے لوٹنے والااس کی خلوت وجلوت کامحرم رازرہنے والا اس کاعالم وفاضل ،متقی وپرہیزگار بیٹاپھرکیوں نہ معرفت کی اعلیٰ منزلوں پرپہنچے گا،کیوں نہ اس کامظہراتم ہوکرخلق عظیم کی تابندگی سے منورومستنیر ہوگااور کیوں نہ اس کے احوال واخلاق سے متصف ہوکرشمیم فضاء کی عطربیزیوں سے معطرومشکبار بنے گا۔
ان صفات کے مطابق اگرواقعات اورحالات کاذکرشروع کیاجائے توصفحہ کے صفحہ رنگین ہوجائیں گے لیکن موضوع پھربھی تشنہ ہی رہے گالہٰذاسی پراکتفا کرتاہوں مگر ایک حسین خصلت اورایک خوبصورت صفت جس کاذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا وہ حضرت قبلہ مدظلہ العالی کی صفت استغنااوربے نیازی ہے جس سے بڑے بڑے دنیادارجہاں داربھی متاثر اورمسحور ہوئے بغیر نہ رہ سکے،پاکستان کی عدالت عالیہ کا عظیم جج،شب وروز عقل کی گتھیاں سلجھانے والاعظیم منصف جسٹس خمیسانی اس درویش خدامست کی بارگاہ میں اکثرحاضر ہوتااور عام آدمیوں کے ساتھ پھٹی پرانی دری اورچادرپر بیٹھ کرمعرفت اورحقیقت کی باتوں سے لطف اندوز ہوتاتھا اورعشق کی سرمستیوں میں ایساکھوجاتاتھاکہ آنکھوں سے آنسورواں ہوتے تھے اورکئی کئی گھنٹے ذکرمحبوب کی لذتوں میں گزرجاتے تھے،ایک روزخودہی عرض کرنے لگے کہ حضرت !میری ایک خواہش ہے کہ اگراجازت ہو توآپ کے حجرہ کی پیمائش کراکے اس کے ناپ کاایک عمدہ قالین پیش کروں،اپنے فقیرانہ حال میں مست رہنے والے اس فقیر بوریہ نشین کی شان استغناء نے یہ گوارانہ کیااوربڑی بے نیازی سے ان کی اس شاہانہ پیش کش کویہ فرماتے ہوئے پائے حقارت سے ٹھکرادیا کہ ہم تواس اپنے پھٹے پرانے بوریہ میں خوش ہیں ہمیں اس دنیوی شان وشوکت کی کوئی ضرورت نہیں ،یہ زبیائش خداآپ کومبارک کرے #
گدائے کوئے توازہشت خلدمستغنی است
اسیربند توازہردوعالم آزاد است
(یہ مضمون حضرت والاڈاکٹرصاحبزادہ ابوالخیرمحمدزبیر مایہ نازتصنیف :”بزم جاناں سے لیاگیا ہے)

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*