ڈائیلاگ ہی واحد اور مستقل حل ہے : محمد امین مگسی

بلوچستان کی سیاست اور حالات حاضرہ : محمد امین مگسی

تحریر : محمد امین مگسی

بلوچستان کی سیاست وہ نہیں رہی کہ جس پر کوئی تبصرہ یا تجزیہ کیا جاسکے , ماسٹرز نے دن رات کرکے وہ کام کر دکھایا ہے کہ جس کہ وجہ سے سیاسی شعور دب کر رہ گیا ہے. چند نوجوان ہیں جو جدوجہد کر رہے ہیں مگر انہیں بھی جان بوجھ کر ایسے معاملات میں الجھا رکھا ہے کہ وہ ان معاملات کو اپنی منزل سمجھ بیٹھے ہیں.
ریاستی بیانیہ اس لئے بھی مضبوط ہوتا جارہا ہے کیونکہ ریاستی مشینری نے اپنی نرسریاں قائم کر رکھی ہیں. جہاں سے وہ اپنے بیانیہ کو پروان چڑھاتے رہتے ہیں. جبکہ سیاسی شعور کی بات کی جائے تو کوئی ایک بھی نرسری نہیں جہاں باقاعدہ طور سیاست اور سیاسی شعور پروان چڑھانے پر کام ہوسکے.
ریاستی بیانیے کی تقویت کیلئے Long term اور short term پالیسیز ہیں. جن پر دن رات کام ہوتا ہے. جبکہ سیاستدانوں کے پاس اپنے نوجوانوں کو دینے کیلئے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے. اگرچہ نوجوان کسی بھی سیاسی جماعت سے منسلک ہوں مگر انہیں وہ پالیسیز یکسر مسیر ہونی چاہیے تھیں جن پر چل کر وہ اپنے اختلافات ضرور رکھتے مگر سیاسی جدوجہد کیلئے متحد ضرور ہوتے. مگر چونکہ سیاسی میدان اور جدوجہد میں پالیسیز کا فقدان ہے تبھی نوجوان اناڑی پن کی سیاسی جدوجہد تو کرتے ہیں جیسے ہی کچھ شہرت ملتی ہے ریاستی بیانیہ کی تقویت پر کام کرنے والے ہائی جیک کرلیتے ہیں.
میری ذاتی رائے میں سیاسی شعور پر کام کرنے کا بہترین طریقہ جسے Long term پالیسیز کا حصہ بنایا جاسکتا ہے تو وہ بلوچ قومی ہیروز کے نام پر تعلیمی اداروں کا قیام جن میں ( اسکولز سسٹم , کالجز , یونیورسٹیز , اکیڈمیاں وغیرہ) کو شامل کیا جائے. جہاں ریاستی بیانیہ پر کام ہورہا ہے وہاں سیاسی شعور پر بھی کام ہونا چاہیے. سیاسی شعور کی آبیاری کیلئے چھوٹے بچوں کو ایسے اداروں میں تعلیم دلوا کر انہیں خالص سیاسی شعور سے آگہی دی جاسکتی ہے.
کوہلو اور ان ایریاز جہاں مری قبیلہ آباد ہے وہاں نواب خیر بخش مری کے نام پر ہر گاوں اور شہر میں ایک بہترین اسکول سسٹم ہونا چاہیے ,, اسی طرح جھل مگسی اور مضافات میں میر یوسف عزیز مگسی کے نام پر , ڈیرہ بگٹی اور متصل علاقوں میں نواب بگٹی کے نام پر , خضدار اور قریبی شہروں میں سردار عطاء اللہ مینگل کے نام پر , ایسے ہی بابو نوروز , میر حاصل بزنجو مرحوم وغیرہ جیسے عظیم ہیروز اور جہدکاروں کے نام پر تعلیمی مراکز قائم کئے جائیں جن میں بچے تعلیم حاصل کریں گے تو انہیں سیاسی شعور بھی ملے گا. وہ جان پائیں گے کہ یہ کون لوگ تھے ان کا کردار کیا تھا. جبکہ ریاستی بیانیہ کی بات کی جائے تو جابجا اسکولز , کالجز قائم ہیں جن میں بچوں کی ذہنیت پر وہ اثر ہوتا ہے کہ وہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد جب دوسرے اداروں میں جاتے ہیں تو انہیں اپنے اسکولز پر فخر ہوتا ہے. پھر انہیں اپنے بنیادی آئینی حقوق پر بولنے کا کہا جائے تو وہ اس پر سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتے فورا سے بھی پہلے اسے غداری اور انتشار کا نام دیتے ہیں.
یہ سچ ہے کہ مسائل کا حل سیاسی شعور اور جدوجہد میں ہی ہے مگر بدقسمتی سے بلوچستان کے سیاستدانوں کو اس حوالے سے کبھی کام کرنے کی ضرورت ہی درپیش نہیں آئی نہ انہوں نے کبھی سیاسی شعور کیلئے کوئی عملی اقدامات بھی کئے ہیں .
سیاستدانوں کو اس حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور انہیں سیاسی شعور کیلئے long term اور short term پالیسیز وضع کرنا ہونگی ورنہ بہت جلد وہ اس بات سے آگاہ ہوجائیں گے کہ سب کچھ ہمارے ہاتھ سے نکلتا ہوا نظر آرہا ہے.
ثناء اللہ بلوچ جو محنت کر رہے ہیں وہ واقعی قابل تعریف ہے مگر یہ چھوٹے موٹے مسائل جیسا کہ حالیہ طلبہ ٹیسٹ ایشو پر احتجاج وغیرہ سے کچھ حاصل نہیں ہونا. یہ سب وقتی ہے وہ خود یہ چاہتے ہیں کہ ایسے مطالبات کئے جائیں پھر انکے مطالبات تسلیم کرکے انہیں خوش کرکے غبارے سے ہوا نکال دینی چاہیے.
دو دن پہلے ٹوئٹر اسپیس پر ایک دوست نے پوچھا کہ طلبہ گرفتار ہیں ان پر ایف آئی آر درج ہوچکی ہے اس حوالے سے آپکی کیا رائے ہے؟ اس دوست کو صرف اتنا کہا کہ ایف آئی آر واپس لی جائے گی اور کچھ نہیں ہونا اور کچھ عرصہ بعد مطالبات بھی تسلیم کرلئے جائیں گے. جبکہ میری نظر میں یہ کوئی اہم ایشو ہے ہی نہیں کہ جسے اتنی اہمیت دی جائے. گو کہ طلبہ کیلئے بہت اہم ہے مگر یہ قومی سیاست میں تحریک بن سکے گا ایسا ہرگز بھی نہیں. بلکہ یہ تحریکی جذبہ کو اور کمزور کردے گا. آئے روز دھرنے دینے اور احتجاج سے تحریکیں زور نہیں پکڑتی بلکہ انکی اہمیت مزید ختم ہوجاتی ہے.
مگر بدقسمتی سے بلوچستان کے مرکز کوئٹہ میں آئے روز اتنے احتجاج ہوتے ہیں کہ اب ایسے احتجاج پر اکثر دوستوں کی رائے یہی ہوتی ہے کہ یہ تو روز کا معمول ہے بندہ کس کس احتجاج میں شرکت کرتا رہے گا. میری ذاتی رائے میں یہ روز روز کے احتجاج کرنے سے قومی تحریک کی اہمیت ختم ہوتی ہے تقویت نہیں پکڑتی. یہ سب اس لئے ہورہا ہے کیونکہ دور اندیش اور صاحب بصیرت قیادت کا فقدان پایا جاتا ہے. بلوچ قومی تحریک کو اب نوجوان قیادت کی اشد ضرورت ہے جو ایک خالص جدوجہد اور درست سمت کی طرف آگے بڑھے اور اپنے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرسکے. پھر وہی سوال جنم لیتا ہے کہ سیاسی شعور کی کمی کے باعث اتحاد کے چانسز بہت کم ہیں جبکہ مزید دھڑے بن جائیں گے. خیر سیاستدانوں کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنے کی اشد ضرورت ہے.

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*