اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں : عبدالماجد ملک

تحریر : عبدالماجد ملک

چڑیاں تب کھیت سے پھُر ہو جایا کرتی ہیں جب انہیں خطرے کا احساس ہوتا ہے، یا وہ سیر ہو چکی ہوتی ہیں یا پھر کھیت ویران ہو چکا ہوتا ہے. پہلے ایک چڑیا چوں چوں کرتی اڑتی ہے، پھر دوسری، اس کے بعد تیسری اور پھر اچانک پورا غول ہی کھیت سے اڑان بھر جایا کرتا ہے. یہی کچھ ہمارے یہاں بھی ہوتا ہے خاص کر سیاست کے میدان میں یہی روایت دوہرائی جاتی ہے، کچھ چڑیا دانے دنکے کی تلاش میں نئے کھیت ڈھونڈتی ہے اور کچھ کو ‘ہانک©ٴکر دوسرے درخت پر پہنچا دیا جاتا ہے. چالباز چالیں چلتے رہتے ہیں، حکمت عملی ترتیب دینے میں مگن ہوتے ہیں کہ دلیل والوں پر غلیل والے حاوی ہو جاتے ہیں اور کوئی کنٹینر پر چڑھ کر رونا ڈالتا ہے، کوئی شور مچاتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا اور کوئی بیماری کا بہانہ بنا کر خود ساختہ ملک بدری کو ترجیح دیتا ہے۔عجیب ہے اور کتنا عجیب ہے کہ جو بلند و بالا دعوے کرتے ہیں جب وہ صاحب ِ اختیار بنتے ہیں تو وعدے فراموش کردیتے ہیں ،دعوے مثل ِ جھاگ بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ تو یہاں تک بھی کہہ دیتے ہیں کہ وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔

یہ بھی کیسی غلط روایت پڑی ہوئیں ہیں کہ ہم احتساب کی بجائے انتقام لیتے ہیں ،نام احتساب کا اور کام اپنا نکلوانا بھی یہاں کا دستور ٹھہرا ہے ،اور دستور سے یاد آیا کہ یہاں دو نگریاں آباد ہیں ،ایک اپر کلاس اور دوسری لوئر کلاس،یہاں بھی وہی بات کہ دستار والوں کا دستور ہے اور غریب کے لیے کوئی شنوائی نہیں ۔ کس کو دوش دیں ؟ کس پر الزام تراشی کریں ؟مسیحا کون اور رہزن کون؟رہبر کے روپ میں لٹیرے ملے ہیں،ملک کو لوٹا ،عوام کے خوابوں کو چور کیا ،ان کے اعتماد کا خون کیا اور پھر پوتر بن کر پہلی صف میں آ کر نئے سرے سے بے وقوف بنانے کو تیار بیٹھے ہیں اور ہم بھی بقول میر ò

میر کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں

ہماری قسمت ملاحظہ کیجئے ،کبھی بادشاہ جمہوریت کا لبادہ زیب تن کیے ہم پر حکومت کرتا ہے تو کبھی کسی کا نمائندہ ہم پر مسلط کیا جاتا ہے اور کبھی تو ایسا وقت بھی آتا ہے کہ صاحب بنفس نفیس خود وردی زیب تن کیے میرے ہم وطنو کو نوید سحر کا بھاشن جھاڑنے خود وارد ہوتے ہیں اور ہماری سادگی تو دیکھیے کہ ہم ہر نئے آنے والوں کو سر آنکھوں پر بٹھانے کو بے تاب اور ان سے لمبی امیدیں باندھنا ہمارا شیوہ رہا ہے اور جب امیدوں کا خون ہوتا ہے ،خواب چکنا چور ہوتے ہیں تو پھر کسی جانے والی کی یاد آتی ہے کہ وہ دن اچھے تھے اب نجانے اچھے دن کب آئیں گے؟ اس بار ہماری قسمت ایک کھلاڑی کے ہاتھ میں ہے جو سیاست کو کھیل کا میدان سمجھتا رہا ہے اور اب کرسی اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد بھی اپنا رویہ وہی رکھا ہوا ہے جو اس سے قبل کنٹینر پر رکھا ہواتھا،کپتان ہینڈ سم ہے ،قوم کو ورلڈ کپ دیا ،ہمارا ہیرو ہے ،انگریزی زبان بڑی روانی سے بولتا ہے ،تقاریر میں ایسی فصاحت و بلاغت ہے کہ مشرق و مغرب کی سرحدیں آپس میں ملا دیتا ہے۔ تقاریر سنیں تو موٹیویشنل سپیکر سا گمان ہوتا ہے اور عمل دیکھیں تو رعایا پریشان کہ ایسا ظلم ِ عظیم ہم پرآنجناب نے کیوں کیا ہوا ہے،قول و فعل میں تضادات کا مجموعہ ہمارا کپتان ہے ،بس صرف اس پر اکتفا نہیں کیابلکہ کپتان نے اپنی ٹیم کا چناؤ پوری دیانت داری سے کیا اور ایسے نادر نمونے اکٹھے کیے کہ سبھی ہماری قومی ائیر لائن کے سلوگن کی طرح باکمال لوگ ہیں،لاجواب سروس ہے اور انہوں نے بڑی محنت سے تقریباََسبھی اداروں کو تباہی کی جانب پہنچانے میں کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے،جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے ہیں اور انہی کامیابی و کامرانیوں پر عوام ہاتھ اٹھائے شکوہ کناں ہے کہ آخرش ہمارا قصور کیا ہے۔

جمہور کی رائے کا احترام ،ان کے ووٹ کی عزت کا تقدس اور بیلٹ سے آنے والی اصل تبدیلی ہی شاید اس ملک کی کایاں پلٹ سکے مگر کبھی آر ٹی ایس بیٹھ جاتا ہے تو کبھی بیلٹ باکس چوری ہوجاتے ہیں اور کبھی تو ان پر درج اندراج بھی تبدیل ہو جاتا ہے ،اس لیے عوام اسی کو لیڈر تصور کر لیتی ہے جو اُن پر مسلط کر دیا جاتا ہے اور رعایا اسی سے امیدیں وابستہ کر کے کبھی میاں صاحب قدم بڑھائیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ،کبھی ایک زرداری سب پر بھاری ،کبھی ملک کا انتظام و انصرام کے لیے وردی ضروری ہے اور کبھی بلے کا نشان کے لیے نعرہ زن ہے کیونکہ عوام کی بے وقوفی ہے جو سبھی پر اعتماد کرتی ہے اور ان سب کو اپنا مسیحا سمجھتے ہوئے یہی گنگناتی رہتی ہے۔ ٴٴاس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*