گالیوں بھری سیاست : ابوعکراش

تحریر : ابوعکراش

سیاست کئی مقاصد کے حصول کے لئے کی جاتی ہے،ان مقاصد میں اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ بھی شامل ہے ، بنیادی طور پہ سیاست ملک کی باگ دوڑ سنبھال کر ملکی معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کے لئے کی جاتی ہے۔وہی سیاست دان کامیاب شمار ہوتا ہے جس کے نظریے میں خوداری اور عوام کی بھلائی سرِفیرست ہو۔ یہ سیاست دان اپنے نظریات کو عوام کے سامنے رکھتا ہے اور دلائل کی بنیاد پہ انہیں قائل کرتا ہے کہ میرے نظریات کی بنیاد پہ ملک کا نظام درست سمت میں چل سکتا ہے۔ پھر عوام اسے ووٹ کے ذریعے ایوان تک پہنچاتے ہیں ،اور وہ حکمران بن کر عوام کی فلاح و بہبود کے فیصلے صادر کرتا ہے۔

مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک پاکستان کو سیاست دانوں کی اکثریت ایسی ملی کہ جن کے پاس نہ تو نظریہ ہے اور نہ ہی خوداری ، بس جہاں وقتی طور پہ اپنا فائدہ نظر آیا وہاں حمایت کرتے نظر آئے اور اپنے مفاد پہ ضرب پڑتی دکھائی دی تو فوراً مخالف سمت میں جا کھڑے ہوئے۔کھوکھلے نعروں اور لالچ کی بنیاد پہ لوگوں کو اپنے پاس بلایا اور ان کے ذہن میں یہ باتیں ڈال دی کہ ہمارے بغیر اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہم ہی وہ واحد لیڈر ہیں جو ملک کو آسمان پہ پہنچا سکتے ہیں۔ان کے نعروں کی حقیقت کیا ہے ، یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔

ان نام نہاد سیاست دانوں کے ارد گرد جو لوگ جمع ہوتے ہیں اُنہیں پہلے سے سکھایا ہوتا ہے کہ اس ملک کے لئے ہم ہی حرفِ آخر ہیں تو بھولی بھالی عوام بھی ان کی باتوں پہ یقین کر جاتی ہے ، اور پھر یہیں سے گالم گلوچ کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔اپنے نظریے کے پرچار کے نام پہ دوسروں کی عزتیں اچھالنا ، گالم گلوچ کرنا حتی کہ مرنے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں، خونی رشتے یہاں آکر ٹوٹ جاتے ہیں ، برسوں سے جو بھائیوں جیسے دوست تھے اِن سیاست دانوں کی وجہ سے بدترین دشمن بن جاتے ہیں۔ قیادت کو ان تمام باتوں کا علم ہوتا ہے پھر بھی کارکنان کو روکا نہیں جاتا ، اور روکیں بھی کیوں قیادت نے ہی تو انہیں یہ سب سکھایا ہے۔ ان سیاست دانوں کی وجہ سے شریف آدمی کے لئے سیاست کا لفظ گالی بن کے رہ گیا ہے، بے وجہ گالم گلوچ نے سیاسی جماعتوں کو بد نما داغ بنا دیا ہے۔

کیا سب وشتم کے بغیر سیاست ممکن نہیں ، اپنے نظریے کا پرچار مثبت انداز سے بھی تو کیا جاسکتا تھا ، شرافت و وقار کے ساتھ بھی تو سیاست ممکن تھی مگر نجانے کیوں سیاست کے لئے گالم گلوچ کو لازمی جز قرار دیا گیا ہے۔رائے کا اختلاف کوئی نئی بات تو نہیں کہ جس کو بنیاد بنا کر یہ سب کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے نوجوان سیاست سے دور رہنے لگے ہیں ، جس کا خمیازہ ہم گالیوں بھری سیاست کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

اب اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے ، ہمیں ہی کردار ادا کرنا ہوگا ، اب صرف نعروں اور دعوؤں پہ اعتبار نہیں کرنا ہوگا ،کسی بھی سیاسی پارٹی یا لیڈر کے کردار کی بنیاد پہ اتفاق و اتحاد یا پھر اختلاف رکھنا ہوگا ، اختلاف کا ایک ضابطہ اور حد بندی ہو جسے کراس کرنے پہ سیاسی جماعتیں سخت درد عمل دیں،تب جا کر بات بنے گی ورنہ بہت مشکل ہے کہ ہمارے حالات بدلیں یا پھر ہم اخلاقی طور پہ ایک مہذب قوم کہلائیں۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*