بلوچستان کی محرومیاں : ابوعکراش

تحریر : ابوعکراش

یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بلوچستان انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے،معدنیات سے مالا مال یہ صوبہ ہمیشہ نظرانداز ہوتا آرہا ہے. یہاں قدرتی وسائل اتنے زیادہ ہیں کہ اگر انہیں ایمانداری سے استعمال میں لاکر ان وسائل کا دسواں حصہ بھی یہاں کے مکینوں کی سہولیات پہ لگایا جائے تو یہ صوبہ کسی ترقی یافتہ ملک کے صوبے سے کم نہ ہوگا. گیس کے ذخائر، کوئلے کی کانیں، سونے کے زخائر اور گہرے سمندر کی بندرگاہ سب سے اہم ہیں.مگر بدقسمتی سے یہ سب بلوچستان کی قسمت بدلنے کو ناکافی ہیں.
یہاں کے مکین ہر ایک زخیرہ کے نکلنے سے صرف خوش ہوتے ہیں باقی عملی طور پہ کوئی کام ہوتا نظر نہیں آتا بالآخر یہ خوشیاں صرف خوشیاں ہی رہ جاتی ہیں ان کا وجود صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہوتا ہے.

حال ہی میں ایسی خوشی بلوچستان کے مکینوں کو تب حاصل ہوئی جب پاک چین اقتصادی راہداری کا اعلان کیا گیا.بلوچستان کے کونے کونے سے یہ آوازیں آنا شروع ہوئیں کہ اب کی بار بلوچستان پیرس بننے جارہا ہے. اب یہاں کوئی بےروزگار نہیں ہوگا. اب بلوچستان میں خوشحالی کا اک نیا دور دورا ہوگا. بلوچستان میں انفراسٹرکچر قابل رشک ہوگا ، پھٹی پرانی چپلوں میں بکریاں چرانے والے بچوں کی قسمت میں اسکول کی راہیں کھلیں گی مگر "بسا آرزو کہ خاک شدہ” دیکھتے ہی دیکھتے کچھ یوں ہوا کہ سی پیک پہ مزدوری کرنے کے لئے مزدور بھی پنجاب سے منگوانا پڑے کہ بلوچوں کا حق اس منصوبے پہ مزدوری کرنے جتنا بھی نہیں. گوادر جو کہ اس ترقی کا سرچشمہ شمار کیا جا رہا تھا اسے پہلے باڑ لگا کر بلوچوں کے لئے شجر ممنوع قرار دینے کی کوشش کی گئی اور اب وہاں کے ماہی گیروں پہ بندشیں لگا کر ان کے بچوں کو بھوکا مارنے کی کوششیں عروج پہ ہیں.
سی پیک کے نام سے جتنی بھی ترقی ہوئی ہے وہ پنجاب میں تو بخوبی دیکھی جاسکتی ہے مگر بلوچستان میں یہ ترقی خوردبین سے بھی دکھائی نہیں دیتی. یہاں کے باشندے جیسے پہلے دنیا کی تمام تر سہولیات سے محروم تھے آج بھی وہی محرومیاں بلوچوں کو جکڑے ہوئے ہیں. جس طرح پہلے کوئٹہ تا کراچی روڈ زندگیاں نگل رہا تھا آج بھی آب و تاب سے خون کی ہولی جاری رکھے ہوئے ہے ، بلوچستان کی کوئی شاہراہ ایسی نہیں جہاں روزانہ ایکسیڈنٹ سے لوگ نہ مر رہے ہوں.

ایسا نہیں ہے کہ بلوچستان کی ان محرومیوں کا ذمہ دار صرف وفاق ہے بلکہ بلوچستان کے اپنے نمائندے بھی اس "کارخیر” میں برابر کے شریک ہیں. بلوچستان میں جس کی بھی حکومت آئی اس نے وفاق کو بھرپور انداز میں سپورٹ کیا. ہر جائز و ناجائز اقدامات کی بھرپور حمایت کی گئی اور اس کے بدلے اپنے اکاؤنٹس کو بھر دیا گیا. اپوزیشن میں ہوتے ہوئے جنہیں بلوچستان کی عوام کی خاطر نیند نہیں آتی تھی وہ ایوان اقتدار میں پہنچ کر ایسی گہری نیند سو جاتے ہیں کہ انہیں بلکتے بچے روتی مائیں اور چیخ و پکار کرتی بہنیں بھی بیدار نہیں کر سکتی.
تمام تر ظلم سہنے کے باوجود اگر کوئی بلوچ پرامن طریقے سے اپنے حقوق کی بات کرتا ہے یا حتجاجا روڈ پہ بیٹھتا ہے تو اسے غدار قرار دے کر خاموش کروانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے. اگر وہ پھر بھی باز نہیں آتا تو اسے ہمیشہ کے لیے غائب کیا جاتا ہے. بالآخر تنگ آکر بلوچ نوجوان بندوق کی جانب بڑھتے ہیں اور پھر انہیں عالمی دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے.

بلوچستان کی ان محرومیوں کی جانب اگر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا تو بلوچستان کے کونے کونے سے آوازیں اٹھنا شروع ہونگی اور یہ آوازیں ایسی ہونگی کہ جس کے شور سے کوئی بھی سکون کی نیند نہیں سو سکے گا. اب بھی وقت ہے کہ بلوچستان کی محرومیوں کو ختم کرنے کی طرف سنجیدہ اقدامات شروع کردیئے جائیں.بلوچوں کو بھی پاکستان کا شہری سمجھتے ہوئے وہی سہولیات دی جائیں جو پنجاب کے باسیوں کو حاصل ہیں.

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*