اچھے انتظامی افسر کے فرائض مسائل اور حل : قیوم راجہ

جیل سے جیل تک اصلاحات : قیوم راجہ

تحریر : قیوم راجہ

بھارتی سفارتکار مہاترے کیس میں جب مجھے اور میرے دو ساتھیوں ریاض ملک اور صدیق بھٹی کو گرفتار کیا گیا تو ہمیں اندازہ تک نہ تھا کہ ہمیں کیسی دنیا سے واسطہ پڑھنے والا ہے۔ ہمیں جیل کا کوئی تجربہ نہ تھا اور وہ بھی دیار غیر میں۔ پہلا شاق اس وقت ہوا جب جیل کے گیٹ سے اندر دھکیلتے ہی ہمیں برہنہ ہو جانے کا حکم دیا گیا اور وہ بھی ایک دوسرے کے سامنے۔ وجہ پوچھنے پر ایک داروغہ بولا یہاں قیدی نہیں افسر سوال کرتا ہے۔ افسر حکم کرتا ہے قیدی تعمیل کرتا یے۔ میں نے دل میں سوچا اس کا وقت ہی فیصلہ رے گا لیکن وقتی طور خاموش رہا۔ اتنے میں جیل کا یونیفارم اس نے ہماری طرف پھینکا اور کہا کپڑے بدلو۔ کپڑے بدلنے کے لیے ہم نے الگ الگ جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر وہاں ایسی کوئی جگہ نہ تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا۔۔ ہم نے برہنہ ہونے کے بجائے پہلے پتلون اور پھر قمیض بدلنے کی کوشش کی تاکہ بدن پورا ننگا نہ ہو مگر داروغوں نے کپڑے چھین کر الف ننگا ہونے پر اصرار کیا۔ میرا انکار جیل انتظامیہ کے ساتھ پہلی جنگ تھی جو ففٹی ففٹی رہی۔ جیل کا یونیفارم بدل کر ہم تینوں کو الگ الگ سیلوں میں بند کر دیا گیا۔ ایک بڑے کتے کے ساتھ سیکورٹی چیف چند افسران کے ہمراہ ہم ہر اپنی دہشت طاری کرنے کی غرض سے سیل کے دروازے پر ایا اور کہا تم "کیٹ اے” ہو۔ پوچھا وہ کیا ہے تو جواب ملا تمہیں خود پتہ چل جائے گا۔ آہستہ آہستہ عجیب و غریب پابندیوں کے تجربات سے معلوم ہوا جیل میں کیٹیگری اے کو کیٹ اے کہا جاتا ہے جو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار قیدیوں پر عائد کی جاتی ہے۔ کیٹ اے کی وجہ سے وزیر داخلہ کی اجازت کے بغیر ملاقاتوں پر پابندی، خطوط کا ترجمہ جس میں کئ ماہ لگ جاتے تھے، 23 گھنٹے بند اور ایک گھنٹہ اکیلے پنجرے کے اندر چہل قدمی اور ہفتے میں صرف ایک بار غسل کی اجازت تھی۔ ان پابندیوں کا تو وقتی ہم نے مقابلہ کیا مگر سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا جب ہمارے سامنے حرام کھانا آیا۔ اس کا حل ہم نے سبزی کے انتخاب سے نکالا مگر دیکھا کہ جب کھانا تقسیم کیا جاتا تو جس کڑچھے کے ساتھ وہ غیر مسلم کو سور کا گوشت ڈالتے اسی کے ساتھ وہ سبزی ڈالتے۔ منع کرنے پر کہا گیا کہ ہم تمہارے لیے الگ برتن نہیں لے سکتے۔ پہلے دن میرا کھانا فرش پر گر گیا کیونکہ میں داروغے سے بات کر رہا تھا تو اس نے زور سے مجھے دی گئی پلاسٹک کی پلیٹ پر سموسہ نما پائی دے ماری۔ پلیٹ فرش پر گر گئی تو داروغے نے چلانا شروع کر دیا۔ اس نے کہا یہی اٹھا کے کھائو یا بھاگو۔ میں چپ کر کے سیل میں چلا گیا اور تین گھنٹے بعد ایک سنئیر افسر بریڈ کے دو پیس مجھے دے گیا جن سے میں نے اگلے 15 گھنٹے تک گزارہ کیا۔ ریمانڈ جیل سے جب ڈسپرسل سسٹم میں ہمیں منتقل کیا گیا تو دیکھا کہ جمعہ کی نماز چرچ کے اندر ہوتی ہے جہاں سامنے دیواروں پر تصاویر لگی تھیں۔ سیکورٹی کسی بھی وقت ہماری تلاشی کے لیے کتوں سمیت سیل میں داخل ہو جاتی۔ قرآن پاک کو ناپاک ہاتھوں سے چیک کرتے ۔ اخبارات کا کوئی انتظام نہ تھا۔ قیدیوں کو مصروف رکھنے کے لیے ہر شام ایک ویڈیو دکھائی جاتی جسے میں نے فاحشہ قرار دے کر گورنر سے مطالبہ کیا کہ ہم مسلمان قیدیوں کو الگ ویڈیو روم دیا جائے جس میں ہم اپنی معاشرتی قدروں کے مطابق ویڈیو کی لسٹ دیں گے۔ پہلے گورنر نے کہا کہ تم یہاں میری جیل ریفارم کرنے نہیں سزا کاٹنے آئے ہو لیکن میں نے گورنر کو کہا کہ آپ قیدیوں کی اصلاح کے بجائے انہیں جرائم کے مزید طریقے سکھا رہے ہو۔ اس نے پوچھا کیسے تو میں نے کہا جرائم پر مبنی ویڈیو دیکھانے سے۔ آہستہ آہستہ گورنر کا رویہ نرم ہوتا گیا اور ہم بھی اپنے مطالبات دہراتے رہے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہمیں حلال گوشت بھی ملا۔ الگ ویڈیو روم بھی۔ اخبارات اور کتب بھی اور جمعہ نماز کے لیے الگ کمرہ بھی۔ اس کے لیے ہم نے طویل مہم چلائی جس میں کچھ ممبران پارلیمنٹ اور انسانی حقوق کے اداروں کے علاؤہ میڈیا اور ڈاکٹر صدیقی کی قیادت میں قائم مسلم پارلیمنٹ سے بھی تعاون حاصل کیا۔ تعلیم بحال کرنے کی درخواست کی تو طنزیہ جواب ملا تمہارے پاس پہلے ہی بہت تعلیم ہے۔ اب آرام کرو۔ کئی درخواستیں رد ہونے کے بعد میں نے ہائی کورٹ میں جیل مینوئل کے ریفرنس کے تحت ہوم آفس کی خلاف تعصب کا کیس کر دیا جو میں جیت گیا۔ اس کے بعد انتظامیہ نے میرے ساتھ رویہ مثبت کر لیا ۔

یہی نہیں بلکہ جیل کے اندر سٹاف ٹریننگ میں میرا ہفتہ وار لیکچر بھی رکھا گیا جس کے ثبوت کے لیے ٹریننگ افسر مسٹر ڈائر کا خط میں یہاں شامل کر رہا ہوں جس میں اس نے میرے پہلے لیکچر ہر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لیکچرز جاری رکھنے کی درخواست کی۔ لیکچرز کی شروعات کے نتیجے میں جیل کے کافی شعبوں تک میری رسائی ہو گئی کیونکہ ہر شعبے کا نمائندہ لیکچرز اٹینڈ کرنے آیا کرتا تھا۔ مسلمان قیدیوں کے لیے میں نے اسلامی کورسز کی اجازت حاصل کی اور زہنی صحت اور مزاہب ہر الگ الگ کانفرنسوں کا بھی انعقاد کروایا۔ ان کانفرنسوں کی تجویز کو عراق اور افغانستان پر امریکی اور برطانوی حملوں کے نتیجے میں زیادہ حمایت ملی کیونکہ ان جنگوں پر مسلم اور غیر مسلم قیدیوں کے درمیان ہاتھا پائی ہو جاتی۔ جیل انتظامیہ آئے روز جھگڑوں سے تنگ تھی۔ گورنر نے کنٹرول کا مشورہ مانگا تو میں نے کہا مزہب پر کانفرنس کروائیں جس میں تمام مزاہب کے نمائندوں کو بلائو۔ اس سے ہم آہنگی پیدا ہو گی۔ ایک کانفرنس لانگ لارٹن جیل میں ہوئی اور ایک گارٹری جیل لیسٹر میں۔پہلی کانفرنس کو کور کرنے کے لیے ایشیائی صحافیوں میں سے صرف روزنامہ جنگ کے ملک عباس کو اجازت دی گئی جبکہ دوسری کانفرنس میں سید زائد بخآری اور برمنگھم سے دو بھارتی ہندو صحافیوں کو بھی اجازت دی جنہوں نے کانفرنس سے زیادہ مجھ پر لکھا۔ ھندو صحافی مجھے دیکھنے اور ٹف ٹائم دینے کی تیاری کرتے نظر آ رہے تھے لیکن جب میں نے انہیں کہا کہ ہم نے ان کے مزھب کے احترام میں سبزی کا بھی بندوبست کر رکھا ہے تو انکے رویے دوستانہ ہو گے۔ میں نے جب نفسیات میں ڈگری مکمل کی تو ڈیپریشن کے شکار قیدیوں کی کونسلنگ پر مجھے جیل کے ماہرین نفسیات کے ساتھ مامور کر دیا گیا۔ حکومت کے ساتھ سیاسی سزائوں کے خلاف ہماری جنگ تو جاری رہی لیکن جیل انتظامیہ نے مجھے روکنا بند کر دیا۔ وہ سمجھ گے کہ حکومت کے خلاف ہماری قانونی جنگ کا انکے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔

22 سال بعد بری ہو کر وطن واپس آیا تو یہاں تقریبا سارے شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت محسوس کی۔ 2006 میں اس وقت کے ڈپٹی کمشنر بشیر مغل صاحب سے خصوصی اجازت لے کر میں نے کچھ اداروں پر تحقیق شروع کی جس پر ایک رپورٹ بھی مرتب کی جس میں اصلاحات کے لیے سفارشات پیش کی گئیں مگر اندازہ ہوا کہ ہمارا پورا خطہ ایک جیل خانہ ہے۔ جس طرح جیل میں قیدی کو انسان کے بجائے عدد سمجھا جاتا تھا وقت کہ وہ خود کو منوا لے اسی طرح ہمارے معاشرے میں شہری صرف عدد ہے۔ تبدیلی اور اصلاح کی کوششوں کو مزاق سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ کے جیل حکام سمجھدار لوگ تھے وہ قیدیوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرتے تھے مگر ہمارے ملک کی انتظامیہ تو آزاد شہریوں کو بھی تباہ کرنے پر تلی ہوئی یے۔ میں سابق چیف جسٹس ہائی کورٹ، چیف جسٹس سپریم کورٹ انتظامی افسران اور آزاد کشمیر پولیس فورس کے انتہائی باصلاحیت افسران سے مل بھی چکا ہوں جن میں ڈی آئی جی راشد نعیم ، ڈی آئی جی راجہ شہریار سکندر جو ہمارے پڑوسی اور برادری کے ہیں، ایس ایس پی عابد میر جنکا تعلق ہمارے سوہلن راجپوت قبیلہ سے ہے، راجہ عرفان سلیم ، راجہ اکمل خان اور ڈی ایس پی مرزا مقصود جرال قابل زکر ہیں۔ ان اعلی پولیس افسران کی دیانت داری پر بھی مجھے شبہ نہیں لیکن اس کے باوجود ان کی نگرانی میں کام کرنے والے پولیس تھانوں میں سفارش رشوت اور اثر و رسوخ کے علاؤہ شہریوں کی شکایات درج نہیں ہوتیں۔ سب یہی کہتے ہیں کہ وہ جو ہو سکتا ہے کر رہے ہیں لیکن تبدیلی نظر نہیں آ رہی ۔ سوچنے پر مجبور ہوں کہ وہ کونسی قوت ہے جس نے ان باصلاحیت اور دیانتدار افسران کو بے بس کر رکھا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ عدلیہ اور پولیس ٹھیک ہو جائے تو بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے لیکن میں کہونگا کہ تعلیمی نظام سب سے پہلے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت لازمی ہے ۔ تعلیم ہر ادارے کی ماں ہے۔ تعلیمی اداروں سے اگر اچھے لوگ نکلیں گے تو دوسرے ادارے خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*