تحریر : رانا عمر اصغر
وہ کیا عوامل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کوئی مرد ریپسٹ بن جاتا ہے ؟ کوئی بھی جنسی حملہ ایسے کسی جرم کا نشانہ بننے والے انسان کے لیے شدید ذہنی، جسمانی اور جذباتی اذیت کی وجہ بنتا ہے لیکن ایسے جرائم کے اسباب بڑے متنوع ہو تے ہیں۔ اس تکلیف دہ حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جنسی زیادتی یا ریپ ایک ایسا خوفناک جرم ہے، جس کا نشانہ بننے والے انسان کو نا قابل تصور حد تک جسمانی اور نفسیاتی اذیت اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ اثرات برس ہا برس تک ختم نہیں ہوتے۔
ایسے زیادہ تر متاثرین بے قصور ہونے کے باوجود کافی حد تک خود کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور اکثر خود سے نفرت اور غصے کی حالت میں رہتے ہیں۔ کسی انسان کا ریپ کیا جانا اسے نفسیاتی طور پر عموماً ایسے ذہنی دباوٴ اور مسلسل دھچکے کی کیفیت میں ڈال دیتا ہے، جسے ماہرین پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم ڈس آرڈر یا پی ٹی ایس ڈی کہتے ہیں، جو ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری ہے۔
لیکن کیا کسی نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ریپ کے بعد کوئی ریپسٹ خود اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ مرد عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیوں کرتے ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے، جس کے کئی جوابات ہیں۔ اس لیے کہ کوئی بھی انسان کئی مختلف عوامل کے نتیجے میں ریپ کا مرتکب ہوتا ہے۔
جنسی حملہ کرنے والا مجرم کسی بھی طرح کا انسان ہوسکتا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کوئی یہ سوچ کر خوفزدہ ہو جائے کہ اس پر کوئی بھی ایسا حملہ کر سکتا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ جنسی زیاتیاں کرنے والے افراد کی شخصیت کی نفسیاتی طور پر کوئی خاص قسم نہیں ہوتی۔
امریکہ کے مشہور کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر سیموئل اسمتھی مین نے 1997ء کی دہائی میں 50 ایسے مردوں کی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے ان کے مفصل انٹرویو کیے تھے، جنہوں نے باقاعدہ عدالتی اعتراف کیے تھے کہ وہ کسی نہ کسی انسان کے ریپ کے مرتکب ہوئے تھے۔ یہ تمام سزا یافتہ مجرم اپنے ذہنیت کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی ریپسٹ کے مجرم کے اسباب کی تشخیص کے لیے اس عمل کی وجوہات کا ٹھوس تعین اور ان وجوہات کی شدت طے کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم کئی مختلف نفسیاتی اور طبی جائزوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ریپ کے مرتکب افراد میں کسی کا جسمانی یا نفسیاتی دکھ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، وہ تقریباً بیماری کی حد تک خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خاص طور پر خواتین کے خلاف جارحانہ جذبات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔
امریکی ریاست ٹینیسی کی یونیورسٹی آف دا ساوٴتھ کی نفسیات کی ریسر چر اور پروفیسر شیری ہیمبی نے ڈی ڈبلیو کو ایک ا نٹر ویو میں بتایا ، کئی واقعات میں جنسی حملہ جنسی جذبات کی تسکین یا جنسی دلچسپی کو پورا کرنے کے لیے نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کا مقصد دوسرے لوگوں کو ذلت آمیز طریقے سے مغلوب کرنا ہوتا ہے۔پروفیسر شیری ہیمبی، جو امریکی سا ئیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے جریدے، نفسیات اور تشدد کی بانی مدیرہ بھی ہیں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، مردوں میں ان کی مردانگی سے متعلق سوچ ایک ایسا زہر ہے ، جو ریپ کے جرم کو ہوا دیتا ہے۔ کئی ریپسٹ اور دیگر جنسی جرائم کر مرتکب افراد نوجوان ہوتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ اپنے ساتھیوں میں اپنی مردانہ ساکھ بہتر بنا سکیں۔ اس لیے کہ
ان کے لئے یہ بات انتہائی پریشان کن ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے طور دوستوں یا قریبی حلقوں کی نظر میں جنسی طور پر نا تجربہ کار ہوتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق یہ طے کرنا بہت ضروری ہے کہ ریپ کو کوئی ایسا جرم نہ سمجھا جائے، جس کی وجہ صرف جنسی خواہشات بنتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی پر جنسی حملہ کرنا ایک پر تشدد مجرمانہ فعل ہے اور اس کی کوئی بھی دوسری قانونی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔ اگرچہ ریپ کے مرتکب کئی مجرموں میں نفسیاتی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں، تاہم کلینیکل سائیکالوجی کے ماہرین کے مطابق ایسا کوئی نفسیاتی عارضہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا، جو کسی مجرم کو اس امر پر مجبور کرے کہ وہ کسی کا ریپ کرے۔
جنسی زیادتیوں کے مرتکب مردوں میں خواتین کے لیے تحقیر اور نفرت کے جذبات عام ہوتے ہیں۔ وہ خواتین کو اکثر ایسی جنسی چیزوں کے طور پر دیکھتے ہیں، جن پر غالب آ کر وہ اپنی جنسی خواہشات کو بھی پورا کرسکتے ہوں۔ اس کے علاوہ ایسے مجرم اپنے طور پر کئی مفروضے بھی گھڑ لیتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی خاتون نے ان کے ساتھ جنسی تعلق سے انکار کیا ہو تو ان کے نزدیک اس کا مطلب ہاں ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انکار کرنے والی کوئی بھی خاتون دراصل انہیں چیلنج کر رہی ہے۔
پاکستان میں اوسطاً روزانہ تقریباً سات بچے جنسی ہراسگی کا نشانہ بنتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے بچے بچیوں کو قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔ مگر قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں آج بھی اس موضوع پر کھل کر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔اگر میں اپنے بچے کے ساتھ جنسی زیادتی اور اسے قتل کرنے والے مجرم کو جلا کر اس کا جسم خاک بھی بنا ڈالوں تو بھی میری روح کو سکون نہیں ملے گا۔ میں اسے کبھی معاف نہیں کر پاوٴں گی، یہ کہنا تھا گزشتہ برس قصور میں ایک آٹھ سالہ بچے کی والدہ کا۔ اس خاتون کے بیٹے کو پہلے ریپ کیا گیا تھا اور پھر اسے قتل بھی کر دیا گیا۔کسی بچے کی موت اس کے والدین کے لیے یقینی طور پر بہت بڑا المیہ ہوتا ہے لیکن ان والدین کو کیسے سکون آئے جن کے معصوم سے بیٹے بیٹیوں کے ساتھ مجرم پہلے جنسی زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں۔2018ء میں پاکستانی شہر قصور کی کم عمر زینب کی تصویر نے سب کے دل دہلا دیے تھے۔ اس بچی کو ریپ اور قتل کرنے والے مجرم کو سزائے موت دے بھی دی گئی لیکن پاکستانی معاشرے میں ایسے جرائم کا سلسلہ تاحال جارہی ہے۔ زینب کے قتل کے بعد بھی قصور میں اس نوعیت کے مزید جرائم بھی پیش آچکے ہیں۔
اب حال ہی میں پاکستان کے شہر مردان میں بھی ایک بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پاکستانی قومی اسمبلی نے زینب الرٹ بل کو منظور کیا تھا لیکن ملکی سینیٹ میں اس کی کچھ شقوں پر اعتراض بھی کیا گیا تھا۔ توقع ہے کہ اس بل کو جلد منظور کر لیا جائے گا۔ مگر قانون سازی کے ساتھ ساتھ آگہی بھی ضروری ہے۔بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کی ترجمان سدرہ ہمایوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا پاکستان میں بہت ہولناک صورت میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ سال کے پہلے چھ ماہ میں تیرہ سو سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
دو ہزار سترہ میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے تین ہزار چار سو پینتالیس واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں دو ہزار اٹھارہ میں گیارہ فیصد اضافہ ہوا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر نفسیات آصف رضا کے خیال میں اسکول اور کمیونٹی کی سطح پر نہ صرف اس مسئلے پر کھل کر بات ہونی چاہیے بلکہ بچوں کی تربیت میں چیزوں کو تنقیدی انداز میں دیکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے اور مختلف پیشوں کے گرد تقدیس کا ہالہ نہیں بننا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں مذہبی تعلیم دینے والے اساتذہ کو بہت زیادہ مقدس بنا دیا جاتا ہے۔ آپ اخبارات اٹھا کہ دیکھ لیں ایک بڑی تعداد اس طبقے کی نہ صرف بچوں پر تشدد کرنے میں ملوث ہے بلکہ وہ ان کو جنسی زیادتی کا بھی نشانہ بناتے ہیں۔ اگر تقدیس کا تصور نہیں ہوگا تو بچہ بغیر کسی خوف کے کسی بھی غیر معمولی حرکت کو والدین کے ساتھ شیئر کر سکتا ہے۔ لیکن کیونکہ بچے کو معلوم ہے کہ والدین قاری یا کسی مولوی کی بہت عزت کرتے ہیں اس لیے وہ ایسے واقعات کو بیان کرنے سے ڈرتا ہے۔
آصف رضا کا مزید کہنا تھا کہ معاشرے کا مجموعی طور پر کمزور کے خلاف رویہ بہت برا ہے۔ کیونکہ بچے کمزور ہوتے ہیں، اس لیے ان پر حملہ آسان ہو جاتا ہے۔ اگر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے تو اس کا سدباب ممکن ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجموعی سماجی تبدیلی اور رویوں میں تبدیلی بھی اہم ہے۔