”کیپیٹل ٹاک“ منیب فاروق V/S حامد میر : رانا علی زوہیب

تحریر : رانا علی زوہیب

چند دن قبل ایک دوست کے بھائی کی وفات پر فاتحہ خوانی کرنے کے لیے اسکی رہائش گاہ پہنچا۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد وہ دوست مجھ سے پوچھنے لگا کہ ”سناؤ کیا حال ہے حامد میر کا، میرے خیال سے وہ اب فارغ ہوگیا ہے اور اب کیپیٹل ٹاک پروگرام کون کرتا ہے “؟ میں نے جواب دیا کہ حامد میر کو آف ایئر کرنے کا فیصلہ مینجمنٹ کا ہے، مینجمنٹ جانے اور میر صاحب جانیں اس میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں، البتہ پروگرام آپس کی بات کے میزبان جناب منیب فاروق صاحب کررہے ہیں۔ منیب فاروق کا نام لیتے ہی وہ صاحب تھوڑا سا مسکرائے اور بولے ”یار یہ منیب فاروق کی قسمت بھی بہت تیز ہے، آج تک اسکا کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا، میں انکو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ پڑھتے تھے“۔میں نے کہا کہ یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ منیب فاروق صاحب انتہائی سلجھے ہوئے اور پڑھے لکھے صحافی/ اینکر ہیں۔

منیب فاروق کو میں اس وقت سے فالو کررہا ہوں جب وہ نجم سیٹھی کے ساتھ پروگرام کیا کرتے ہیں۔ نجم سیٹھی کے ساتھ پروگرام آپس کی بات کی ایک اپنی اہمیت تھی لیکن پروگرام کو چار چاند اس وقت لگے جب نجم سیٹھی صاحب نے جیو کو خیرباد کہا اور آپس کی بات پروگرام بھی دوسرے پروگراموں کی طرح ایک روایتی انداز میں عوام کو دیکھنے کو ملا۔ حامد میر کے آف ایئر ہونے کے بعد کیپیٹل ٹاک پروگرام کی ذمہ داری منیب فاروق صاحب کے کندھوں پر آگئی جسے وہ بخوبی نبھا رہے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ شاید ان سے بہتر کوئی کر نہیں سکتا تھا۔

کیپیٹل ٹاک پروگرام کی میزبانی جب حامد میر کرتے تھے تو عوام میں ایک تاثر پایا جاتا تھا کہ حامد میر صاحب کے تندوتیز سوالات ہمیشہ پی ٹی آئی کے خلاف ہی ہوتے یا اس جماعت کے خلاف ہوتے جو اپوزیشن میں ہوتی سوائے ن لیگ کے۔ پروگرام کا فارمیٹ کچھ ایسا تھا کہ انٹرنیشنل لیول کی سیاست اور خاص طور پر پاکستان کی سیاست سے ہٹ کر کوئی دوسرا موضوع شاید ہی کبھی دیکھنے کوملتا جس سے پروگرام کی ویورشپ ایک مخصوص حلقے تک محدود سمجھی جاتی تھی۔ گو کہ پروگرام پاکستان میں نمبر ون پر تھا، حکومتی،اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن حلقوں کا فیورٹ پروگرام تھا لیکن سوال یہ تھا کہ اس پروگرام سے عوام کو کیا حاصل ہو رہا ہے؟ کیا عوام کے جذبات کی ترجمانی یا وہ سوالات جو ایک عام آدمی کے زہن میں گردش کرتے ہیں کسی حکومتی عہدے دار سے پوچھے جاتے تھے؟ حامد میر کے ہوتے ہوئے ٹویٹر پر سوالات شیئر کیے جاتے اور جوابات کو پروگرام کی سکرین پر چلایا تو جاتا لیکن وہ طبقہ جسکے پاس موبائل ہی نہیں وہ ٹویٹر کیا استعمال کرے گا؟

حامد میرے کے بعد کیپیٹل ٹاک پروگرام کی میزبانی کرنا واقعی میں ایک چیلنج تھا لیکن یہ شاید کسی کو معلوم نہ تھا کہ منیب فاروق جب سکرین پر بیٹھیں گے تو تاثر یہ ملے گا کہ کیپیٹل ٹاک کی میزبانی اب اصل ہاتھوں میں آئی ہے۔ منیب فاروق کی میزبانی میں کیپیٹل ٹاک عام عوام میں مقبول ہوچکا ہے۔ مقبولیت کی وجہ روایتی سیاست اور گالم گلوچ سے ہٹ کر حقیقی عوام کی ترجمانی کرتا پروگرام ہے۔ شو کا فارمیٹ تبدیل کیا گیا۔ عام عوام کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ٹویٹر نہیں بلکہ عوام کے جذبات اور احساسات کو براہ راست سکرین پر لانا وہ کامیابی ہے جسکی کیپیٹل ٹاک کو اشد ضرورت تھی۔

منیب فاروق صاحب کا شمار پاکستان کے ٹاپ صحافیوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں صحافیوں اور اینکروں پر تشدد ایک معمولی سی بات ہے۔ شو کے دوران تکرار ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔ زرد صحافت کا دھبہ گھر سے نکلتے ہی راہ تک رہا ہوتا ہے۔آئے روز جھوٹے سچے پرچوں، مقدمات اور تھریٹس کا سامنا اینکرز حضرات کو کرنا پڑتا ہے لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی منیب فاروق پر کوئی پرچہ درج ہوا ہو، کبھی کسی کے منہ سے یہ الفاظ تک نہیں سنے کہ منیب فاروق زرد صحافت کے حامل شخص ہیں۔ دوسرے اینکرز کی طرح کوئی کسی بھی قسم کا سیکنڈل سامنے آیا ہو۔ منیب فاروق کا صاف شفاف صحافتی کیرئیر پاکستان کے باقی اینکرز کے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ انکا تجزیہ اور میزبانی دونوں ہی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو منیب فاروق صاحب کو انکے صاف شفاف صحافتی کیرئیر کے لیے صدارتی ایوارڈ سے نواز دیتا۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*