حمید گل سے فیض حمید تک : عمران اقبال قائم خانی

تحریر: عمران اقبال قائم خانی

امریکا اور نیٹو افواج کی افغانستان سے شرمناک انخلاء پر بہت کچھ لکھا جا چکا مگر یہ کہنا غلط ہو گا کہ عالمی طاقتوں نے 20 سال تک افغانستان میں جھک ماری ہے، جس انداز اور عجلت میں بوریا بستر لپیٹنے کے مناظر دیکھنے اور کابل میں بدری 313 یونٹ کی پرسکون اور فاتحانہ آمد پر لوگ خوشیوں کے شادیانے بجا رہے ہیں ان کی خدمت میں یہ عرض کرتا چلوں کہ نیو ورلڈ آرڈر ابھی جاری ہے. بظاہر اسے امریکہ اور اتحادیوں کی شکست کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، مگر یہ نظروں کا دھوکا ہے. اور اس کا اندازہ ہمیں آنے والے وقت میں ہو گا.

عالمی قوتیں یہ جان چکی ہیں کہ اس خطے میں اپنے مفادات کی جنگ اسٹیک ہولڈرز کی مرضی و منشا کے برخلاف حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے. را، سی آئی اے سمیت دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ حمید گل سے لے کر فیض حمید تک آئی ایس آئی ان کے لئے لوہے کے چنے ثابت ہوئی ہے. اگر ایک لمحے کے لئے ہم بھارتی میڈیا سے نظریں پھیر لیں تو پھر ہمیں باقی پوری دنیا میں ایک پرسکون ماحول نظر آتا ہے. یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی 20 سال میں ٹریلین ڈالرز ضائع کرنے، ہزاروں فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ اربوں ڈالرز کا فوجی سازوسامان افغانستان میں چھوڑ کر اس طرح بھاگے ہیں جیسے کوئی چور بھاگتا ہے. لیکن پھر بھی ان کے لبوں پر مارخور کا نام نہ آنا کسی طوفان کی نوید دے رہا ہے، اس طوفان کو چائے کی پیالی کا طوفان کہنا بہت بڑی بے وقوفی ہو گی. اب طوفان کی ترجیحات کچھ اور ہوں گی لیکن مرکز جنوبی ایشیاء ہی رہے گا. اس کا ادراک حمید گل سے فیض حمید تک کے ہمسفر بخوبی جانتے ہیں. عالمی طاقتوں کی ہرزہ سرائی کا چیلنج آئی ایس آئی کے لئے اب کوئی معنی نہیں رکھتا، اس خفیہ ایجنسی نے دنیا کی بہترین ایجنسیوں کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کیا ہے. ہائبرڈ وار کا سہارا لینے والی شکست خوردہ عالمی قوتوں کو اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ اب جس ہائبرڈ جنگ کی وہ تیاری کر رہے ہیں دراصل پاکستان کی آئی ایس آئی نے اسی طرز جنگ کو آج سے دس پندرہ سال پہلے اپنا لیا تھا. افغانستان میں پاکستانی فوج اتارے بغیر جنگ میں فتح کو ہائبرڈ جنگ نہ کہیں تو پھر کیا نام دیں. یہ ہائبرڈ نام عالمی طاقتوں نے اپنے لئے سنبھال کر رکھا تھا مگر میں واری جاؤں اپنی آئی ایس آئی پر کہ جس نے اس کا استعمال بھی انہی کے خلاف افغانستان میں کیا.

مبصرین مانتے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کی رفتہ رفتہ کم ہوتی مقبولیت کو دوام بخشنے کے لئے امریکی تھنک ٹینکس نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے، اور اس مرتبہ شاید بھارت کو ساتھ ملا کر کچھ ہائبرڈ، کچھ سرحدی جھڑپوں اور پاکستان میں اندرونی طور پر عدم استحکام پیدا کر کے اپنا بدلہ لینے کی کوشش کی جائے گی. مگر بھارتی افواج کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ کارگل کے محاذ پر عملی طور پر شریک ہونے کی تاریخ گزرے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے اور پاکستان کو اشتعال انگیز جارحیت کے ذریعے اکسانے کی کوشش خطے میں خدانخواستہ اگر مکمل جنگ میں بدل گئی تو یہ بھارت کے مفاد میں نہیں ہے کیونکہ بھارت اچھی طرح جانتا ہے کہ پاکستانی فوج گزشتہ بیس سالوں سے عملی طور پر میدان جنگ میں ہے اور مسلسل اس جنگ کا حصہ رہنے اور 70 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دے کر اپنی صلاحیتوں میں مزید نکھار لا چکا ہے. بھارت کے درجن سے زائد کونسل خانے بھی افغانستان میں بند ہو چکے ہیں، طالبان نے بھی اپنی سرزمین پڑوسی ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت سے انکار کر دیا ہے. حمید گل سے فیض حمید تک کے سفر میں ہمسفر کی نگاہیں اب ملک میں اندرونی طور پر امن و امن کی بحالی پر بھی مرکوز ہیں، جس کا اشارہ افغانستان میں آئی ایس آئی کے سربراہ فیض حمید نے چائے کی پیالی ہاتھ میں تھامے دے دیا ہے.

بھارتی میڈیا کی چیخ و پکار اور رونا دھونا نیا تو ہے نہیں کہ جس کا تذکرہ کیا جائے، بدری 313 یونٹ ہو یا پنجشیر کی مزاحمت، مرحوم حمید گل کا تاریخی جملہ ہو یا فیض حمید کے ہاتھ میں چائے کا کپ الغرض ہر ایک پہلو پر انڈین میڈیا سیخ پا ہے، ہر روز ہمارے محترم جرنلسٹس اور تجزیہ نگار کے منہ سے پاکستان مخالف لفظ کی تلاش میں دن رات ایک کر دیا ہے لیکن اب تک کامیابی حاصل نہ کر سکا، افغانستان میں لاکھوں ڈالرز ڈوبنے کے بعد ہوش ٹھکانے نہیں آ رہے ہیں، اگر ہمارے جرنلسٹس اور تجزیہ نگار بھارتی چینلوں کو انٹرویو نہ دیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے چینلز کی ٹی آر پی زمین بوس ہو جائے گی اور ہمارے تجزیہ نگاروں کو یہ کام ضرور کرنا چاہیے.

حمید گل سے فیض حمید تک کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا کیونکہ نیو ورلڈ آرڈر کا داعی امریکہ اپنی ہزیمت آمیز شکست کا بدلہ ضرور لے گا، اگر بھارت کی عسکری صلاحیت ذہنی و جسمانی طور پر مضبوط ہوتی تو امریکہ بھارت کی پیٹھ ضرور تپھتپاتا مگر فلموں میں دشمن کو گھس کر مارنے والوں کی سوچ کے وزن کا اندازہ امریکہ بہادر کو ضرور ہے اس لئے اب حکمت عملی کو تبدیل کیا جائے گا. لیکن امریکہ کو اندازہ نہیں ہے کہ 20 سال سے سفر کرنے والے ہمارے ہمسفر ابھی تھکے نہیں ہیں.

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*