"بیگانی شادی" سید فرحان الحسن

دھوتی کے استعمال کو فروغ دیں : سید فرحان الحسن

تحریر : سید فرحان الحسن

وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل جاتا ہے، ضرب المثل محاورات وقت گزرنے کے ساتھ کچھ کے کچھ ہو گئے، اسی طرح بہت سے علاقوں کے نام اور چیزوں کے نام بھی بدل گئے، لیکن کچھ چیزیں کسی نہ کسی صورت ہمارے درمیان موجود ہیں جن میں سے ایک دھوتی بھی ہے۔ دھوتی پنجاب کا روایتی لباس ہے، دھوتی کی وجہ تسمیہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ پنجاب کی مقامی زبان چونکہ پنجابی ہے اس لئے دھوتی پنجابی والی ہی دھوتی ہے، لیکن یہ بات میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں نے آج تک دھوتی ہوئی دھوتی کم ہی دیکھی ہے۔

دھوتی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اگر یہ سردی کے موسم میں پہنی جائے تو پہننے والے پر کپکپی طاری کر دیتی ہے اور گرمی میں جس طرح پہنی جاتی ہے عموماً سامنے والے پر کپکپی طاری کر دیتی ہے۔ دھوتی اور آئس کریم میں چند باتیں مشترک ہیں، سردی کے موسم میں سڑک پر کہیں جاتے ہوئے اگر کوئی منچلا نوجوان آئس کریم کھاتا ہوا دکھائی دے تو والدین عموماً بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر یا بچے کی توجہ کسی اور جانب مبذول کروا کر تیز تیز قدم اُٹھانے لگ جاتے ہیں، جبکہ گرمی میں اگر کوئی بزرگ سڑک کنارے دھوتی زیب تن کئے ہوئے کھڑے ہوں اور ایسے میں اچانک تیز ہوا کا جھونکا آ جائے تو وہ تیز ہوا کا جھونکا مذکورہ بزرگ کے علاوہ سڑک پر موجود اکثر لوگوں کو اپنے ساتھ اُڑا لے جاتا ہے۔

آج کل والدین باہر کے ماحول سے نالاں اور اپنے بچوں پر اس ماحول کے منفی اثرات مرتب ہونے کے خوف میں مبتلا نظر آتے ہیں، دوسری جانب معاشرے میں پردے کی کمی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے ہم سب ہی کسی نہ کسی صورت پریشان ہیں۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ان سب مسائل کا بھی آزمودہ حل دھوتی ہی ہے۔ ہمارے بچپن میں محلے کے چند بزرگ عموماً کام سے واپس گھر پہنچ کر دھوتی زیب تن کر لیا کرتے تھے اور گرمی کے موسم میں عموماً بارش بھی عین ان کے کام سے واپسی کے اوقات میں ہی ہوا کرتی تھی ایسے میں یہ بزرگ جلدی جلدی روٹی کھا کر بالٹی یا ڈول ہاتھ میں پکڑے گھر کے باہر گلی میں لگے ٹوٹے ہوئے پرنالے سے پانی بھرنے میں مگن ہو جاتے تھے اور ایسے میں ان کے اردگرد جو بچے کھیل رہے ہوا کرتے وہ عموماً کھیل بھول جایا کرتے اور ابھی حیرت و حسرت میں ڈوبے ہی ہوا کرتے کہ اچانک ان کی والدہ یا گھر کی کوئی معمر خاتون چہرے کو پلو سے چھپائے ان کو ایک ہاتھ سے کھینچ کر دروازہ بند کر لیا کرتیں اور بچوں کے استفسار پر ان کے اندر کھینچنے کی کوئی وجہ بیان نہ کرتیں بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتیں کہ باہر بہت تیز بارش ہے چھت پر جا کر بارش میں نہا لو۔ پس ثابت ہوا کہ دھوتی کا استعمال نا صرف والدین کو اس بات پر مجبور کر دے گا کہ وہ اپنے بچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں بلکہ معاشرے میں پردہ کو بھی فروغ ملے گا۔

دھوتی انسان کے اندر عزت نفس اور خود داری کے جزبات کو پروان چڑھاتی ہے، عیدین اور دیگر تہواروں کے موقع پر اکثر ہمیں درزی کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے، اور ایسے مواقع پر درزی بھی اپنے آپ کو سرکاری ملازم سمجھنے لگتا ہے۔ کبھی آستینیں چھوٹی تو کبھی گلا غلط لگا دیتا ہے۔۔۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اس مسئلہ کا حل بھی دھوتی ہی ہے۔ دھوتی انسان کے اندر خودداری پیدا کرتی ہے اور اس کو لباس کے معاملہ میں خود کفیل بنا دیتی ہے، تہوار کوئی بھی ہو آپ کو محض کپڑا خریدنا ہے۔۔۔ نہ درزی کی منت سماجت اور نہ ہی کمر بند کی فکر۔

پاکستان میں لوڈشیڈنگ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جس نے ہم سے رات کا چین اور دوپہر کا فین چھین لیا ہے، کہا جاتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ تب تک مکمل طور پر حل نہیں ہو سکتاجب تک دو بڑے مسائل (طلب و رسد اور انفراسٹرکچر) حل نہ ہوں، انفراسٹرکچر تو حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن طلب و رسد کے توازن میں عوام بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔اور اس ضمن میں دھوتی وہ واحد ذریعہ ہے جو بجلی کی طلب کو انتہائی کم کر دے گا۔ گرمی کے موسم میں دھوتی کو ایک ڈبہ پانی کے ساتھ گیلا کر کے باندھ سکتے ہیں، اس سے آپ کو ایئر کنڈیشن یا روم کولر کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوگی۔ دھوتی کو عموماً استری کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہو تی، یقین جانیئے کہ محض دھوتی کے باقاعدہ استعمال سے ہم محض ایک سال میں ناصرف بجلی کے معاملے میں خودکفیل ہو جائیں گے بلکہ ہماری طلب سکڑ کر اتنی رہ جائے گی کہ ہم پڑوسی ممالک کو بجلی برآمد کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

گزشتہ ۷۴ برس کے دوران پاکستان میں ہر آنے والی حکومت نے کرپشن کے خلاف جہاد کا اعلان کیا لیکن اس جہاد میں مال غنیمت ہاتھ نہ آسکا، ٹریفک پولیس چونکہ ایک سرکاری ادارہ ہے اور اس پر بھی کرپشن اور رشوت ستانی کے الزامات ہیں، حکومت کے چند محتاط فیصلے ٹریفک پولیس میں رشوت ستانی کو ناصرف کم کر سکتے ہیں بلکہ جلد ہی جڑ سے اکھاڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔اس ضمن میں جو ذمہ داری ٹریفک پولیس کے اعلیٰ حکام کی ہے وہ یہ ہے کہ ٹریفک پولیس کے اعلیٰ افسران فی الفور ٹریفک پولیس کی وردی تبدیل کر دیں اور دھوتی کو وردی کا لازمی جزو قرار دے دیں۔ دھوتی میں چونکہ عموماً جیب نہیں ہوتی اس لئے ٹریفک پولیس اہلکار پکڑے جانے کے خوف سے رشوت بھی نہیں لیں گے اور اگر کسی اعلیٰ افسر نے دوران ڈیوٹی تلاشی بھی لے لی تو ٹریفک پولیس ببانگ دہل کہہ سکے گا۔۔۔
دیکھو یہ میرے پیسے ہیں، دیکھو یہ میری پرچیاں
میں نے سبھی حساب جاں برسرعام رکھ دیا۔۔۔!
اگر ٹریفک پولیس اہلکاروں کی دھوتی سفید رنگ کی ہو تو اس کے چند روحانی فوائد بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں، سفید رنگ کی دھوتی کو بار بار دیکھ کر ٹریفک پولیس اہلکار کو کفن یاد آئے گا جبکہ عوام سفید کپڑے میں بندھے ہوئے اس اہلکار کو حاجی سمجھنے لگ جائیں گے۔ غرضیکہ دھوتی کے استعمال سے ان گنت مالی اور اخلاقی فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں، تاہم سب قارئین کو میرا ذاتی مشورہ ہے کہ ہر مسئلہ میں حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانے کی جگہ اپنا کردار ادا کریں اور دھوتی کے استعمال کو فروغ دیں۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*