تحریر : پروفیسرعبدالشکورشاہ
قرض ایک مرض ہے جسے ہم نے فرض بنا لیا ہے۔ قرض کفایت شعاری کا دشمن ہے۔بدترین حالات میں بھی قرض دہندہ مقروض کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو قائم ہوئے 77سال ہو چکے ہیں۔ دونوں جڑواں بین الاقوامی اداروں کا قیام دوسری جنگ عظیم کے خاتمے سے چند ماہ قبل 1944میں عمل میں لایا گیا۔ اگر یوں کہا جائے کے دوسری جنگ عظیم کو دومیدانوں میں لڑا اور جیتا گیا تو بے جا نہ ہوگا۔ پہلا میدان جنگی محاذ جبکہ دوسرا مالی محاذ تھا۔امریکہ اور اس کے حلیفوں نے مشترکہ طور پر دنیا کو قرض کے جال میں پھانسنے کا منظم منصوبہ تشکیل دیا۔قرض کے زریعے محکوم بنانے کا نظام بھی نوآبادیاتی اور سامراجی نظا م سے مختلف نہیں ہے مگر لگتا یکسر مختلف ہے۔بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے جدید سائنسی اور منظم انداز میں کمزور، غریب اور کم ترقی یافتہ اقوام کے وسائل کو لوٹنے اور ان کی پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کے لیے ایسا نظام متعارف کر وایا جو دیکھنے میں پرکشش ہے مگر درحقیقت یہ نوآبادیاتی اور سامراجی نظام سے بھی خطرناک ہے۔ نوآبادیاتی اور سامراجی نظام میں قومیں اپنے آپ کو محکوم سمجھتے ہوئے آزادی کے لیے کوشش کرتی تھی جبکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے قرض کے جال میں نہ صرف پھنستی چلی جاتی ہیں بلکہ انہیں محسوس بھی نہیں ہوتا کے ان کی آزادی اورخود مختاری سلب کی جا رہی ہے۔ مغرب دوسری اقوام کو اپنے ماتحت رکھنے کے لیے قرض کا موثر ترین ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف اپنے قیام سے اب تک مسلسل بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے علاوہ ہمیشہ مطلق العنان حکمرانوں کی پشت پناہی اور تقویت کے حامی رہے ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی ادارے کرسٹوفر مارلو کے مشہور زمانہ ڈرامہ جیو آف مالٹا (مالٹا کایہودی) کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈرامے کے مرکزی کردار بارابس کی طرح یہ ادارے کم ترقی یافتہ اقوام کے وسائل کے ساتھ ساتھ ان کی زبان و ثقافت، تاریخ و تمدن اور نظریاتی بنیادوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک دنیا میں واحد حکومت کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ان مالیاتی اداروں کا بھر پور استعمال کر رہے ہیں۔ مالیاتی اداروں کے قرض کے جال کے زریعے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک دنیا کے ہر خطے میں سراہیت کر چکے ہیں۔ ہمیں اس بات کا اندازہ ہو نا چاہیے قرض اور فنڈز کے نا م پر رقم دینے والے سودی جال کے زریعے مالک بن جاتے ہیں۔یہ مالیاتی ادارے اپنے اہداف کے حصول کے لیے شرائط میں مسلسل تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں۔ اب یہ مقروض ممالک کے اہم قومی اداروں کوضمانت کے نام پر ہتھیانے لگے ہیں۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی طرز کی ایک جدید چال ہے جس کے زریعے آہستہ آہستہ اپنے قدم مضبوط کرنے کے بعد پورے ملک پر قابض ہو جانے کا منصوبہ ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا قرض کا یہ جال لوسیفراور ڈاکٹر فاسٹس کے درمیان لالچ اوراپنی سلطنت کو مضبوط کرنے کا کھیل ہے جس کے نتیجے میں افسوس اور پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملنا۔ ان مالیاتی اداروں کے قیام سے لیکر اب تک ایک بھی ملک ایسا نہیں ملے گا جو ان کے قرض کے جال سے نکل سکا ہو۔مستقبل قریب میں ان مالیاتی اداروں کو سافٹ منی کے علاوہ ٹیکنالوجی کے ٹائیکون میں تبدیل کردیا جائے گاتاکہ دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کے منصوبے کو جلدعملی شکل دی جا سکے۔ انسانیت تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے۔ ان عالمی غاصب مالیاتی اداروں کے متبادل متوازن ادارے قائم کرنا ناگزیر ہو چکا ہے جن کا مقصد انسانیت کی مدد ہو نہ کہ سودی جال میں پھنسا کراس کی آزادی اور خودمختاری سلب کر لی جائے۔ انسانی حقوق کے عالمی مبلغین نے قرض کے زریعے انسانیت کو اپنا غلام بنا لیا ہوا ہے۔ 70کی دہائی میں ترقی پذیر ممالک کا قرضہ اچانک بہت بلند سطح پر پہنچ گیاکیونکہ تب قرض کیلیے شرائط موزوں اور آسان تھیں۔تیسری دنیا کو تھپکی اور جھانسہ دے کر مالیاتی اداروں سے قرض لینے کیلیے آمادہ کیا گیااور1970میں منافع کو اچانک بہت زیادہ بڑھا دیا گیاجس کے نتیجے میں عالمی منڈی میں صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ اسی طرح 1980کی دہائی سودی نظام اور منافع خوروں کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوئی ساوتھ ایسٹ ایشیاء اور کوریا کے مالی بحران کے خالق بھی یہی ادارے تھے جس سے ان مالیاتی اداروں کو مزید تقویت ملی۔ 1970-80کے دوران مالیاتی اداروں نے اپنے قرضوں میں بے پناہ اضافہ کیا اور اس کے ساتھ ہی شرح سود اور شرائط بھی مزید سخت کر دیں۔ اس عرصہ کے دوران ٹرانسفر نیٹ کیش کی شرح مسلسل مثبت رہی جس کا مطلب ہے قرض لینے والوں نے جتنا قرض لیا تھا اس سے زیادہ مزید قرض لیا ہے۔ ان ممالک کو مزید قرض لینے پر آمادہ کیا گیا کیونکہ شرح سود بہت کم تھی اس لیے یہ ممالک باآسانی ان کے جال میں پھنستے چلے گئے۔چونکہ خام مال کی قیمت کافی زیادہ تھی اس لیے مزید قرض لینے سے شرح سود میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1975میں شرح سود1.1%تھی جو1980میں بڑھ کر 8.6%ہوگی ایک سال بعد ایک فیصد مزید بڑھا دی گئی۔ ستر کی دہائی میں شرح سود کو گرا کر تیل کے پیداواری ممالک کو متاثر کیا گیا اور انہیں قرض لینا پڑا۔ 1983سے منفی نیٹ کیش کا سلسلہ شروع ہوا جس کا مطلب ہے قرض لینے والا ملک قرض سے زیادہ ادائیگی کرتا ہے۔ 1983سے 1991تک مسلسل نو سال تک منفی نیٹ ٹرانسفر نے قرض لینے والے ممالک کو اس دلدل میں مکمل طور پر پھنسا دیااور یوں وہ اصل قرض سے کئی گنا زیادہ ادا کرنے لگے۔ اسی عرصہ کے دوران امریکی ڈالر میں 81% اضافہ ہوااور قرض لینے والوں کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینے کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہ بچایوں نئی شرائط کے ساتھ مزید قرض لیا گیا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کے ایکسٹرنل پبلک ڈیبٹ دو سال کے اندر منفی نیٹ ٹرانسفر کیش میں تبدیل ہو گیا۔ یہ صورتحال1998-99میں آکر مزید گھمبیر ہو گئی جب روس، برازیل، ترکی، ارجینٹینا اور پھر 2001میں ترکی میں مالی بحران پیدا کیا گیا۔ 2001-4کے دوران شرح سود اور شرائط میں مزید سختی دیکھنے کو ملی اور منفی نیٹ ٹرانسفر کا تسلسل برقرار رہا۔ 200-4کے دوران منفی نیٹ ٹرانسفر کیش کی مد میں 21.3بلین امریکی ڈالر ادا کیے گئے اگر موازنہ کیا جائے تو اس رقم سے بھی کم ورلڈ بینک سالانہ قرض دیتا ہے۔2004-2020کے دوران ان مالیاتی اداروں نے تو رونگٹے کھڑے کو دیے ہیں اور اعداد شمار اور شرائط جان کر انسان سر پکڑ جکر رہ جاتا ہے۔ اس سب سے عالمی مالیاتی اداروں کی خودغرضی واضع ہے جس کا مقصد سودی نظام کے زریعے معیشت کی بحالی اور غربت کے خاتمے کا نعرہ لگا کر کمزور اور غریب ممالک کو دیوالیہ کر کے ان پر قابض ہونا ہے۔ آی ایم ایف اور ورلڈ بینک انسانیت کی آزادی سلب کرنے کے لیے بارابس کا کردار ادا کر رہے ہیں اور انسانوں کو قرض کی زنجیروں میں مقید کر رکھا ہے۔ ان اداروں کے قرض کے جال سے نکالنے کے لیے مہذب دنیا کو متبادل منصفانہ اور متوازن نظام لانا ہو گا۔