"افغانستان موجودہ و آیندہ ۔۔ ایک تجزیہ” : ابو بکر راٹھور

کالم : ابر نامہ
تحریر : ابو بکر راٹھور

رہے نام اللہ کا ۔ سدا بادشاہی رب کی ۔ چشم فلک نے معاصر عالمی تاریخ میں دو مرتبہ یہ منظر دیکھا کہ جب نام نہاد عالمی قوتوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہ نام نہاد عالمی قوتیں اسباب و وسائل سے محروم ناتجربہ کار افراد کے سامنے بے بس نظر آئیں ۔ ابھی چند دہائیوں قبل سیکولر بیانیے کے مطابق افغانستان میں ایک عالمی طاقت کا اقتدار اور نظام حکومت قائم ہونے جا رہا تھا لیکن اس وقت کی نام نہاد عالمی قوت آخرکار بے بس ہو گئی اور شکست وریخت کے ساتھ ساتھ تقیسم در تقسیم کا شکار بھی ہو گئی ۔ حالیہ منظر نامے میں بھی جب لبرل دانشوروں کے خوابوں میں قائم حکومت تعبیر پانے لگی تھی کہ عالمی اتحادی افواج کی بیس سالہ طویل جدوجہد ، اربوں ڈالر کا سرمایہ اور ہزاروں جانوں کی قربانی بھی ضائع گئی ۔ بیس سالہ طویل کشمکش اور خون ریزی کا نتیجا افغانستان سے امریکا اور اتحادیوں کے ناکام انخلاء کی صورت میں نکلا ۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے 2001ء میں طالبان سے اقتدار چھینتے ہوئے ملک پر اپنا قبضہ قائم کیا ۔ ان بیس سالوں میں اتحادی افواج نے طالبان کے مکمل خاتمےکی ہر ممکن کوشش کی لیکن انھیں کامیابی نہ ہوئی اور بیس سال بعد بھی طالبان اسی بھرپور جذبے اور جوش سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ، جس کا نتیجا ہے کہ آج ہرات ، قندوز ، قندھار ، مزار شریف ، جلال آباد اور کابل سمیت تقریباً پورے ملک پر طالبان کا اقتدار قائم ہو چکا ہے ۔
پندرہ اگست تا دم تحریر بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں کے مطابق طالبان نے دارالحکومت کابل کا محاصرہ کرتے ہوئے پرامن طور پر اقتدار بھی حاصل کر لیا ہے ۔  دیگر شہروں میں طالبان حکومت کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ ملک بھر کے دیگر شہروں میں طالبان کے داخلے اور سرکاری عمارات اور اہم مقامات پر طالبان کے قبضے سے اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد افغان حکومت کی بے بسی اور کمزوری سب پر عیاں ہو گئی ہے ۔ ان تمام علاقوں میں طالبان کا بغیر رکاوٹ اور پر امن قابض ہو جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اتحادی افواج نے انخلاء سے قبل افغان حکومت کے لیے منظم حکمت عملی نہیں اختیار کی تھی ۔
اتحادی افواج کے انخلاء سے اب تک افغان حکومت کے رہے سہے اقتدار کی واحد وجہ طالبان کی اپنائی گئی حکمت عملی تھی ۔ وہ اپنی حکمت عملی کے مطابق کسی خون ریزی یا خانہ جنگی کے بغیر اقتدار کے قیام کے لیے ہونے والے مذاکرات میں مصروف تھے ۔ اس لیے یہ سلسلہ بظاہر سست روی کا شکار نظر آیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کابل شہر کے محاصرے پر بھی طالبان ترجمان کے اعلان کے مطابق وہ کسی بھی قسم کے انتقام کی خواہش یا ارادہ نہیں رکھتے تھے ۔ شہر میں داخلے کے لیے ان کی طرف سے کسی بھی طاقت کا استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا گیا اور افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے اس اعلان کا خیر مقدم بھی کیا گیا ۔
ماضی میں اتحادی افواج کے زیر انتظام قائم افغان حکومت کے خلاف طالبان کی حکمت عملی جارحانہ رہی تاہم مذاکرات میں پیش رفت کے بعد نرمی برتی گئی ۔ ماضی کی نسبت اس مرتبہ طالبان نے  زیادہ منظم حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے کابل پر بزور طاقت قابض نہ ہونے کے اعلان کا خیر مقدم بھی مثبت رد عمل رہا ۔
اتحادی افواج اور امریکا کا انخلاء سے قبل افغان حکومت طالبان کے درمیان کسی معاہدے کی کوشش نہ کرنا اس طرف بھی اشارا ہے کہ جیسے یہ انخلاء وقتی تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ طویل جنگ میں تھکی ہوئی فوج نئی حکمت عملی کے تحت کچھ دیر کے لیے آرام چاہتی ہے ۔ اتحادی افواج اور امریکا خانہ جنگی کی خواہش لیے روانہ ہوتے تو مکمل امن کی صورت میں واپسی کے راستے بند ہو جاتے ۔ واپسی کا راستہ رکھنا لازم تھا ۔ برطانوی سیکریٹری دفاع کا کہنا کہ افغانستان دوبارہ خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے ، اس سلسلے کا پہلا بیان تھا ۔ موصوف کا دوسرا بیان کہ افغانستان کی سرزمین سے برطانیہ کے خلاف کوئی دہشت گردی کا منصوبہ بنایا گیا تو برطانیہ مداخلت کا حق رکھتا ہے یہ ثابت کرتا ہے کہ انخلاء کے پس پردہ ایک نئے ڈرامے کا اسکرپٹ لکھا جا رہا ہے ۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے اس شکست کو تسلیم کرنا مشکل امر ہے اور اس شکست کی صورت میں ہونے والی شرمندگی کا بار کچھ زیادہ ہی ہے ۔ ممکنات میں ہے کہ اس تاریخی ہزیمت کے ازالے کے طور پر نائن الیون جیسی نئی کہانی لکھی جائے اور اب کی مرتبہ امریکا نہیں بلکہ اتحادی ممالک میں سے کسی اور کا انتخاب کیا جائے ۔ برطانیہ اس وقت تک کا مضبوط ترین امیدوار ہے ۔
ان تمام خدشات اور توقعات سے الگ اس وقت تک اہم ترین معاملہ کابل پر طالبان کے قبضے کا پر امن رہنا اور افغان حکومتی ارکان کا وہاں سے باحفاظت نکلنا تھا جو اشرف غنی کی تاجکستان روانگی سے ممکن ہوا ۔ باقی کے اسکرپٹ پر عمل درآمد کے لیے آیندہ کے دو سے تین سالوں کا عرصہ درکار ہے ۔ اس عرصے میں اتحادی ممالک معاشی اور افرادی قوت کے اعداد وشمار میں مصروف رہیں گے ۔ عین ممکن ہے کہ دو سالوں بعد عالمی حالات کے تناظر میں اتحادی ممالک کی تعداد میں کمی ہو جائے ۔
نئی افغان حکومت ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کے لیے مشکل امتحان ثابت ہو گی ۔ مہاجرین اور دیگر انتظامی معاملات کے ساتھ ساتھ نئی حکومت کے قیام اور استحکام کے مراحل پاکستان کی حکومت اور معیشت کے لیے کڑا امتحان ہوں گے ۔ پاکستان ہمیشہ افغانستان میں امن کا خواہاں رہا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کی کوششیں اور قربانیاں کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان قابل تحسین ہے کہ افغانستان کے داخلی معاملات میں پاکستان کسی دخل اندازی کا قائل نہیں ہے ۔
قابل تشویش بات یہ ہے کہ عالمی طاقتیں کسی طور بھی اس پر امن انتقال اقتدار کو قبول نہیں کریں گی ۔اشرف غنی کا کردار پرامن افغانستان کے لیے یادگار رہے گا ۔ اقتدار کسی کا بھی رہے آخر ایک دن ختم ہو جانا ہے کہ رہے نام اللہ کا ۔ سدا بادشاہی رب کی ۔

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*