تحریر : ابو بکر راٹھور
"سرپرائز”
"دیکھنا یہ ہے کہ ہما کس کے سر بیٹھتا ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آزاد کشمیر میں بھی پنجاب کی طرح کوئی غیر متوقع فیصلہ سامنے آ جائے ۔ "
4 جولائی کو شائع ہونے والے "ابر نامہ” کی آخری سطریں سچ ہو گئیں ۔ اس کے پس منظر میں کوئی روحانیت، اشارا یا مخبری نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کا ٹریک ریکارڈ ہے اور انھوں نے اس مرتبہ بھی مایوس نہیں کیا ۔ خان صاحب کے کریڈٹ پر کرکٹ سے سیاست کے میدان تک ایسے کئی فیصلے موجود ہیں کہ جن کی کبھی کسی کو توقع نہیں رھی ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے انتخاب سے لے کر نو منتخب وزیراعظم آزاد کشمیر کے بطور وزیر اعظم نامزد ہونے تک خان صاحب کے فیصلے مبصرین اور ناقدین کے ساتھ ساتھ ان کے مداحوں کے لیے بھی ہمیشہ حیران کن رہے ہیں ۔
25 جولائی کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی برتری کے بعد وزیراعظم کے لیے ہونے والی تمام قیاس آرائیوں کے برعکس فیصلے نے سب کو حیران کر دیا ۔ وزارت عظمٰی کے لیے سامنے آنے والے ناموں میں وزیراعظم جناب عبد القیوم نیازی کا نام شامل نہ تھا ۔ ان کا اپنا بیان بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے ۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بہت سے لوگ شیروانیاں تیار کیے ہوئے تھے اور اسی دوران مجھے اپنے نام کی اطلاع ملی ۔ وزارت عظمٰی کی دوڑ میں شامل دونوں بڑے نام ایک طرف رہ گئے اور نیازی صاحب کا نام سامنے آ گیا ۔
سیاسی پنڈتوں کی پیشگوئی اب تک تو غلط ثابت ہو گئی اور اس کا نقصان بھی کسی سیاسی پنڈت کو نہیں پہنچا لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ اس سے اگلے مرحلے میں عوام کے خدشات درست ثابت نہ ہونے لگیں ۔ وزیر اعلٰی پنجاب کے غیر متوقع اعلان کی طرح کہیں نو منتخب وزیراعظم کی کارکردگی بھی انہی کی طرح نہ رہے ۔ ریاست اور عوام دونوں کے لیے ایسی کارکردگی آزمائش سے کم نہ ہو گی ۔
——————————————————————————————
"ویزا”
تین مرتبہ کے سابق منتخب وزیراعظم علاج کی غرض سے 2019 ء میں برطانیہ گئے ۔ طبی ماہرین کی سربراہی میں ان کی بیماری کے پیش نظر انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر چار ہفتے کے لیے جانے کی اجازت دی گئی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں قیام کا دورانیہ بڑھتا گیا ۔
برطانیہ روانہ ہونے سے قبل سابق وزیراعظم نیب کی تحویل میں اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کر رہے تھے ۔ سابق وزیراعظم کے باہر جانے کو "ڈیل” بھی قرار دیا گیا تاہم مسلم لیگ (ن) نے ایسے کسی بھی مؤقف کی تردید کی اور اپنے ووٹر کو یقین دلایا کہ ان کے ووٹ کو عزت دی جائے گی اور سابق وزیراعظم صحت یاب ہو کر بہت جلد وطن واپس لوٹیں گے ۔ وطن لوٹ کر وہ ان تمام مقدمات کا سامنا کریں گے جو بقول نون لیگ "وطن اور عوام محبت” کی وجہ سے ان کے خلاف قائم کیے گئے ہیں ۔ مہینے گزر گئے لیکن یہ بیان اب تک بیان ہی ہے اور اس پر عمل نہیں ہو سکا ۔ سوشل میڈیا اور نیوز چینلز پر سامنے آنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیمار سابق وزیراعظم اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ برطانیہ کی سڑکوں اور ہوٹلوں میں گھوم پھر رہے ہیں ۔ اسی دوران مقامی سطح پر جماعت کے عہدیداران ان کی صحت سے متعلق پریشان دکھائی دیتے رہے ۔
کچھ عرصہ قبل ان کے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے پر انھیں اس میں توسیع نہ ملی ۔ گزشتہ دنوں یہ خبر اس وقت دوبارہ سے اہمیت اختیار کر گئی کہ جب برطانوی وزارت داخلہ کا مؤقف سامنے آیا ۔ برطانوی وزارت داخلہ نے سابق وزیراعظم کے ویزے میں توسیع سے انکار کر دیا اور ان کے بیان کے مطابق سابق وزیراعظم کی صحت اطمینان بخش ہے اور ان کا برطانیہ میں مزید قیام جواز نہیں رکھتا ۔ اس خبر نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ۔ حکومتی وزراء اور مشیروں نے اسے تحریک انصاف کے مؤقف کی فتح قرار دیا ۔ دوسری طرف مریم صفدر صاحبہ نے بیان جاری کیا کہ نواز شریف حکومت اور اس کے اراکین کے حواس پر چھا چکے ہیں ۔
مریم صاحبہ سیاسی بیان بازی میں مصروف شاید اس حقیقت کو بھول رہی ہیں کہ عوام اتنے بھولے بھالے نہیں رہے ۔ میاں صاحب کی بیماری سے متعلق ان کے مؤقف کو غلط اور جھوٹا ثابت کرنے کے لیے برطانوی وزارت داخلہ کا بیان کافی ہے ۔ انھیں چاہیے کہ والد اور قائد کی اطمینان بخش صحت پر رب کا شکر ادا کریں لیکن شاید یہ صحت ان کے اور جماعت کے لیے اچھی نہیں ہے ۔ نون لیگ وہ جماعت بن رہی ہے کہ جس کے لیے ان کے قائد کی صحت خوشی کی وجہ نہیں ۔
شنید ہے کہ سابق وزیراعظم کے رفقاء اور مشیروں کی کوشش ہے کہ ویزے میں توسیع کے اس معاملے کو قانونی مراحل میں الجھا دیا جائے ۔ مشیران اور رفقائے اکرام یہ چاہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم اگلے الیکشن یا کم از کم مناسب حالات آنے تک برطانیہ میں رہیں ۔ اس تاخیر کے لیے ہر قانون اور سہولت سے استفادہ کیا جائے کہ وطن واپسی پر انھیں پھر سے مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا اور دوبارہ جانے کی اجازت بھی نہیں ملے گی ۔
——————————————————————————————
"کے پی ایل”
آزاد ریاست جموں و کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں کشمیر پریمیئر لیگ کا انعقاد بہت خوشی کی خبر ہے ۔ مظفرآباد میں شروع ہونے والا یہ میلہ ایک بڑی کامیابی ہے ۔
بھارتی کرکٹ بورڈ نے اسے روکنے کی بہت کوششیں کیں لیکن ناکام رہا ۔ آئی سی سی کی طرف سے واضح مؤقف جاری ہونے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو روکنے کے لیے ان سے رابطے کیے ۔ آیندہ انڈین پریمیئر لیگ میں پابندی کی دھمکیاں دی گئیں لیکن غیر ملکی کھلاڑیوں کے انکار سے انھیں دوہری مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔
ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں پر مشتمل چھ ٹیمیں کشمیر پریمیئر لیگ میں شامل ہیں ۔ ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ مقامی کھلاڑیوں کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ کرکٹ کے کھلاڑیوں اور شائقین کے لیے ریاست میں ہونے والے یہ مقابلے تازہ ہوا کے جھونکوں کے مترادف ہیں ۔ ان مقابلوں کی صورت میں جہاں شائقین کی دلچسپی کا سامان ہو گا وہیں پر نئے کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے پلیٹ فارم بھی ملے گا ۔ سب سے بڑھ کر مقامی کھلاڑیوں کے لیے خوشی کا سبب اس پریمیئر لیگ کے زریعے آگے بڑھنے کا موقع ہے ۔ قومی کرکٹ ٹیم کے لیے نئے کھلاڑی بھی سامنے آئیں گے ۔
ریاستی دارالحکومت میں ہونے والی پروقار تقریب کے باعث لائن آف کنٹرول کی دوسری طرف صف ماتم بچھ گئی کہ ان کی کوششیں ناکام ہوئی اور میڈیا پر کے پی ایل مخالف پروپیگنڈا بھی بے کار گیا ۔