وادی بناہ کے جاٹ قبیلے کی حکمت و حق : قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

حالیہ الیکشن سے پہلے اور دوران میں کئ بار قبیلائی سیاست اور تعصبات کے خلاف لکھ چکا ہوں۔ یہ کالم ان سیاسی تبصروں، حیرتوں اور شکائیتوں کے ردعمل میں ہے جو کہتے ہیں کہ وادی بناہ کھوئی رٹہ کے جاٹوں کو جوں ہی ڈاکٹر انصر ابدالی کی شکل میں امیدوار ملا تو انہوں نے پی ہی ہی اور مسلم لیگ کو خیر باد کہہ دیا۔ آئیے حقائق کی روشنی میں دیکھیں کہ آیا یہ شکوے شکایت جائز ہیں یا جاٹوں کی حکمت دانش اور صبر سے دوسرے قبیلوں اور انکے انتخابی امیدواروں کو کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے؟

گزشتہ چالیس سال کی انتخابی سیاست میں جاٹ قبیلے کے موجودہ محتسب اعلی چوہدری محمد نسیم ایڈووکیٹ صاحب 1985 کے پہلے الیکشن میں 200 کے قریب ووٹوں سے راجہ نثار احمد خان سے ہارے تھے۔ راجہ نثار مسلم کانفرنس، چوہدری نسیم آزاد مسلم کانفرنس اور گجر قبیلے سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد رفیق نئیر پی پی پی کے امیدوار تھے۔ آزاد مسلم کانفرنس کو بیرسٹر سلطان محمود نے لبریشن لیگ میں ضم کر دیا تھا جسے وہ بعد میں چھوڑ کر پی پی پی میں چلے گے تھے۔ تب سے وادی بناہ کی انتخابی سیاست مسلم کانفرنس اور پی پی ہی کے ارد گرد گھومتی رہی۔ راجپوت کھوئی رٹہ میں گجر اور جاٹ قبیلے کے بعد ابادی کی لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں لیکن پھر بھی گزشتہ چالیس سالوں کے دوران زیادہ تر عرصہ راجہ نثار احمد خان ہی وزیر رہے ۔ ان کی اس کامیابی کی ایک وجہ جاٹ قبیلے کی بھاری اکثریت اور آج جنہیں متحدہ قبائل کہا جاتا ہے کہ حمایت تھی۔ دوسرا بے نظیر بھٹو کے ساتھ اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سلطان محمود کے اختلاف تھے جنہوں نے پی پی پی سے الگ ہو کر اپنی الگ جماعت بنا لی تھی۔ گجر برادری کے رفیق نئیر اس نئی جماعت میں چلے گے تھے جسکی وجہ سے گجر قبیلہ تقسیم ہو گیا اور راجہ نثار احمد خان مضبوط ہوتے گے۔ پھر نادیدہ قوتوں نے مسلم کانفرنس کے ساتھ بھی وہی کیا جو پی پی ہی سے کیس تھا۔ مسلم کانفرنس ٹوٹی تو راجہ نثار احمد خان جب مسلم لیگ ن میں شامل گے تو مسلم کانفرنس کمزور ہو کر اب پورے آزاد کشمیر میں ایک سیٹ تک محدود ہو گئی جو سردار عتیق احمد خان کے پاس ہے۔ ان تمام انتخابی پارٹیوں میں جاٹ قبیلے کے کسی امیدوار کو ٹکٹ حاصل کرنے کا موقع نہ ملا کیونکہ 1985 میں بحال ہونے والی نام نہاد جمہوریت پر کرپشن سے کمایا گیا پیسہ اتنا حاوی ہو گیا کہ ہر جیتنے والا سب سے پہلے اگلے الیکشن کے لیے دولت جمع کرنے کے طریقے ایجاد کرتا رہا۔ جمہوریت کے نام پر مطلق العنانی اور موروثیت کو پروان چڑھایا گیا اور اس فرسودہ نظام کے بانیوں مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان اور سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان تاریخ میں نشان عبرت بن گے۔ الیکشن میں دولت کا ناجائز استعمال ابھی جاری ہے اور اب عوام بھی ان ہی چیزوں کو قبول کرنے لگی ہے جسکی وجہ سے صلاحیت کردار اور دیانتداری کی کوئی قدر و جگہ نہیں رہی۔ جاٹ قبیلے کو سیاسی لوگ راجپوت اور گجر کے نسبت جزباتی قرار دیتے ہیں لیکن وادی بناہ کے جاٹوں نے میرے نزدیک انتہائی تحمل مزاجی صبر اور حکمت سے کام لیا ہے۔ انہوں نے جب دیکھا کہ پی پی پی پر گجر اور مسلم کانفرنس پر راجپوت قبیلوں کا قبضہ ہو گیا جہاں پارٹی کے اندر جمہوری طریقے سے قیادت کا انتخاب نہیں ہوتا تو چوہدری محمد نسیم راجہ نثار احمد خان کے دست راست بن گے۔ جاٹ قبیلہ سمجھ گیا کہ سیاست میں شارٹ کٹ خطرناک ہوتا ہے۔

انہوں نے اپنے خلاف کسی سیاسی تعصب کا رونا رونے کے بجائے تعلیم پر توجہ دے کر اپنے تعلیم یافتہ نوجوان سرکاری اداروں میں ایڈجسٹ کروائے جبکہ چوہدری نسیم ماضی میں چئیرمن زکوٰۃ کونسل رہے اور اب محتسب اعلی ہیں۔ تقریبا ہر سرکاری محکمے میں جاٹ قبیلے کے تعلیم یافتہ نوجوان موجود ہیں اور انہون نے کوئی سیاسی سودہ بازی نہیں کی بلکہ محنت کر کے میرٹ پر گے ہیں۔ حالیہ الیکشن 2021 میں جاٹ قبیلے کے ڈاکٹر انصر ابدالی کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دیا جس کا سب سے زیادہ کریڈٹ ان کے بڑے بھائی ڈاکٹر مقصود ابدالی حال لنڈن کو جاتا ہے کیونکہ اس مہنگی ترین اور مشکل ترین سیاست میں اپنے چھوٹے بھائی کو ڈاکٹر مقصود ابدالی صاحب کی خصوصی شفقت اور رہنمائی نے یہ موقع فراہم کیا ہے ورنہ ایک عام آدمی تو الیکشن مہم کاایک دن کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا ۔ ڈاکٹر مقصود صاحب نے بطور طالب علم ایبٹ آباد میڈیکل کالج سے ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد لندن کا رخ کیا جہاں وہ اپنے شعبہ آرتھوپیڈک میں دنیا کے آٹھ بڑے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں جو بلا شبہ قوم کے لیے فخر کی بات ہے۔ ڈاکٹر انصر ابدالی کو ٹکٹ ملنے پر بلا شک جاٹ قبیلے کی اکثریت پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو چھوڑ کر ڈاکٹر انصر ابدالی کی حمایت میں پی ٹی آئی میں چلی گئی لیکن پی پی پی اور ن لیگ کا شکوہ تب جائز بنتا ہے جب وہ خود جمہوری طریقے سے قیادت کا انتخاب کرتے ہوں۔ تحصیل ، ضلع اور ڈویژن کی حد تک تو پارٹی الیکشن ہو جاتے ہیں لیکن اس سے آگے سیلیکشن ہوتی ہے۔ مرکزی لیڈر پہلے تو کبھی قیادت چھوڑتا ہی نہیں اگر دستبردار ہو جائے تو جانشین اس کا اپنا بیٹا یا بیٹی ہو گی۔ اچھا سیاستدان تو وہی ہے جو اپنے جانے کے وقت کا خود فیصلہ کر لے کیونکہ نکالے جانے سے نکل جانا بہتر ہے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں خسرو کے محراب پر لکھا ہوا تھا کہ تو سینکڑوں سال بھی حکومت کر لے پھر تو خاک میں جب ملے گا تو مخلوق ہمارے سروں پر چلے گی۔

برحال قبیلائی اور موروثیت کے اس دور میں جاٹ قبیلے سے کسی کی شکایت نہیں بنتی۔ شکائیتیوں کو اگر کچھ کرنا ہے تو وہ جاٹ قبیلے کے صبر تحمل اور حکمت و دانش سے سبق سیکھ کر خود کو آگے کے لیے تیار کرنا ہے۔ ڈاکٹر انصر ابدالی کو کامیاب کرانے کے لیے رفیق نئیر سے ٹیکنوکریٹ کی سیٹ کا وعدہ کیا گیا تھا جو ہورا ہو گیا اور ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ رفیق نئیر نے بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے صبرکا مظاہرہ کیا ۔ اس دفعہ ایک الیکشن میں کھوئی رٹہ کو دو سیٹیں ملی ہیں تو تعمیر و ترقی بھی دوگنی ہونی چاہیے۔ اس لیے عوام اور حزب اختلاف حلقے کے دونوں نمائندوں کو حلقے کی خدمت کا بھرپور موقع دینا چاہیے اور ان دونوں نمائندوں کو مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یوں تو تمام غیر ریاستی پارٹیوں سے الحاق کی شق سمیت مسلہ کشمیر پر ہمارے اصولی اختلاف ہیں اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا نیا اختلاف اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ آزاد کشمیر کا سٹیٹس ہے۔ بصورت دیگر ہم حلقے میں امن چاہتے ہیں کیونکہ جہاں امن نہیں وہاں ترقی نہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ غیر ریاستی پارٹیوں میں کس کی کشمیر پالیسی درست سمت میں جاتی ہے۔ کل 5 اگست خاموشی سے گزر گیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ آزاد کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کی خطرناک افواہوں پر کونسی پارٹی کیا پالیسی اختیار کرتی یے اور یہی پالیسی انکے مستقبل کا تعین کرے گی۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*