آزاد کشمیر کے الیکشن پر پاکستانی سیاسیت اور کشمیری نفسیات کے اثرات : قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

آزاد کشمیر میں جو بھی پارٹی الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے وہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہ اسکے نظریے اور پالیسی کی کامیابی ہے۔ اس دعوے میں حقیقت کا شائبہ تک نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو مجاہد اول کہلانے والے سردار عبدالقیوم خان اور سالار جمہوریت کے دعویدار سردار سکندر حیات سے سیاست اس بے رخی و بے وفائی کا مظاہرہ نہ کرتی ۔ اب ان دونوں کے جاں نشین گھر بیٹھ کر یہ نغمہ ہی گا سکتے ہیں: جلتے ہیں ارماں میرا دل روتا ہے قسمت کا دستور نرالہ ہوتا ہے۔

آزاد کشمیر کے الیکشن پر اثر انداز ہونے والے تین بڑے فیکٹرز ہیں: پاکستان کی مداخلت، کشمیری نفسیات اور ناجائز پیسہ ۔

آزاد کشمیر میں اب تک بننے والی تمام حکومتیں واضح ثبوت ہیں کہ جو حکومت اسلام آباد میں ہو گی اسی کی مرضی کی حکومت آزاد کشمیر میں بنے گی۔ آزاد کشمیر میں زیادہ تر مسلم کانفرنس نے اقتدار کا نشہ لیا۔ اس سے آزاد کشمیر کو محدود کرنے کے لیے غیر جمہوری قوانین مسلط کروائے گے جن میں الحاق پاکستان کی شق شامل ہے مگر قومی مفادات کا سودا کرنے والے دونوں بڑے قیوم خان اور سکندر خان نشان عبرت بن گے ہیں۔ مسلم کانفرنس پر انہی قوتوں نے شب خون مارا جنہوں نے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا مگر یہ کوئی انہونی اور انوکھی بات نہیں۔ اقا اور غلام کے رشتے میں ہمشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ سردار سکندر حیات خان اگر 2006 میں الیکشن ریٹائرمنٹ کے فیصلے پر قائم رہتے تو تحریک آزادی کی مخالفت کے باوجود کسی حد تک انکی عزت قائم رہتی لیکن انہوں نے مزکورہ فیصلے سے دستبردار ہو کر انتقامی اور غیر تعمیری سیاست کا آغاز کر کے جاوید بڈھانوی جیسے شریف نوجوان اور دوسرے حلقے سے آنے والے چوہدری محمد یاسین کے ہاتھوں اپنی فیملی کی سیاست کے تمام دروازے بند کروا دیے۔ کوٹلی میں ایک بار ایک غیر جماعتی جلسے میں جس کی صدارت سردار سکندر حیات خان کر رہے تھے سے براہ راست مخاطب ہو کر میں نے انہیں کہا تھا کہ اپ نے اپنے گھر نکیال کی تعمیر و ترقی میں اچھا کردار ادا کیا مگر جو لوگ آپکو سالار جمہوریت کہتے ہیں وہ آپ سے اور جمہوریت سے مزاق کرتے ہیں کیونکہ آپ اور سردار قیوم خان نے تو موروثیت کو جنم دیا ہے۔

کوٹلی میں ملک نوازنے بھی مخصوص اداروں کی زندگی بھر تابعداری کی مگر انکی سیاست کا اختتام بھی بہت برا ہوا۔ وہ مسلسل چھ مرتبہ الیکشن جیتے ۔ اگر ہوس اقتدار کا شکار نہ ہوتے تو انہیں وقت پر انتخابی سیاست چھوڑ کر با عزت طریقے سے گھر چلے جانا چاہیے تھا لیکن لگتا ہے کہ کسی پاکستانی اور کشمیری سیاست دان کو علم نہیں کہ باعزت طریقے سے سیاست سے رخصت ہونے کا وقت کب ہوتا یے۔ 2016 کے الیکشن میں 33 سیٹیں لینے والی مسلم لیگ ن اب 2021 میں 6 سیٹوں پر ا گئی ہے۔ اب پی ٹی آئی والوں کا دعویٰ ہے کہ آزاد کشمیر کے الیکشن عمران خان کے ویژن کی کامیابی ہے مگر یہ بھی ماضی کی طرح اسلام آباد میں قائم حکومتی پارٹی کی مداخلت کا نتیجہ ہے جس میں کشمیری نفسیاتی عنصر بھی شامل ہے۔ وہ یہ کہ آزاد کشمیر کے لوگ سخت ۔محرومیوں کا شکار ہیں۔ وہ یہ سوچ کر ووٹ دیتے ہیں کہ فںڈز اور انکے قومی وسائل پر اسلام آباد کا کنٹرول ہے۔ اصل فیصلے تو اسلام آباد ہی کرتا ہے اس لیے اسی پارٹی کی حمایت کی جائے جس کی حکومت اسلام آباد میں ہے تاکہ شاید انہیں اور تو کچھ نہیں کم از کم ملازمتیں اور تعمیر و ترقی کے لیے کچھ فنڈز مل سکیں مگر برادریوں اور پیسے کے زور پر الیکشن لڑنے والے اقتدار پرست ٹولے خود کو عوام کے آگے جوابدہ نہیں سمجھتے۔

عمران خان نے صرف آزاد کشمیر کی حد تک ریفرنڈم کرانے کا زکر کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جس کے خلاف محب وطن غیرت مند اور وحدت پسند کشمیریوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ مریم نواز نے بھی آزاد کشمیر دورے کے دوران بچہ بچہ کٹ مرے گا کشمیر صوبہ نہیں بنے گا کا ںعرہ لگا کر مسلم لیگ ن کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ آزاد کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کی سازش میں عملی طور پر مسلم لیگ ن کس کاساتھ دیتی ہے۔ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ کے کردار کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو پھر کچھ نظر نہیں آتا لیکن کشمیریوں کو دوسروں ہر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے زور بازوں پر تیرنا ہو گا۔ کشمیریوں کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں صرف ترجیحات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ الیکشن میں کامیابی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر سکتے ہیں تو مادر وطن کی وحدت کی بحالی کے لیے کیوں نہیں؟

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*