ایک اسلام پسند ترک پروفیسر کی وطن میں مرنے کی خواہش : قیوم راجہ

تحریر : قیوم راجہ

ایک ترک پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کاایک بیان نظروں سے گزرا جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ اپنے ایک دوست کے ہمراہ انڈونیشیا گے جہاں کورونا ٹیسٹ کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ کر دیے گے جسکی وجہ سے وہ اس خوف میں مبتلا ہو گے کہ اگر وہ پردیس میں مر گے تو کیا ہو گا۔ انہوں نے دعا مانگی کہ انکی موت اپنے وطن میں ہی ہو۔ یہ امر باعث دلچسپی ہے کہ ایک ایسا مسلمان دانشور جو جو ساری دنیا کو پیدا کرنے والے خدا کا گھر سمجھتا ہے اور ہے بھی ایک اسلامی ملک کے دورے پر وہ بھی اپنے آبائی وطن میں دفن ہونا چاہتا ہے۔ آخر کیوں؟ اگر واپس اللہ ہی کے پاس جانا ہے تو پھر تدفین وطن سے مشروط کیوں؟ زہہن میں پیدا ہونے والے اسی سوال نے مجھے ڈاکٹر طوقار کے مضمون پر تبصرے پر آمادہ کیا۔

خلیل طوقار استنبول یونیورسٹی شعبہ ادبیات کے انچارج ہیں۔ وہ ایک اسلام پسند اور محبت وطن ترک ہیں جو ہمیشہ مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور اسلام کی سربلندی کے لیے کوشاں رہتے ہیں سرکاری پروٹوکول کے تحت پاکستان اور آزاد کشمیر کے بھی کئی دورے کر چکے ہیں۔ سرکاری ہیلی کاپٹر پر انہیں سیز فائر لائن کا وزٹ بھی کرایا گیا۔ ہندوستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور لاہور یونیورسٹی میں بھی کچھ عرصہ لیکچر دیتے رہے ہیں۔ ترکی میں وہ اردو زبان کے ماہر ہیں۔ انکی سرپرستی میں اردو کو آعلی سطح پر فروغ مل رہا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے لیے بھی متحرک رہتے ہیں اللہ انکی عمر دراز کرے ۔

2014 میں مجھے انہوں نے استنبول یونیورسٹی میں مسئلہ کشمیر اور اسکے حل کے موضوع پر خطاب کی دعوت دی اور شعبہ تاریخ کے سربراہ پروفیسر علی ارسلان جو ترک وزارت خارجہ میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں نے مجھے ایک شیلڈ بھی دی۔ خطاب سے قبل باقاعدہ اس پروگرام کی تشہیر بھی کی گئی مگر پیش آنے والے واقعات سے اندازہ ہوا کہ کشمیر کے خود ساختہ وکیل نے اس پروگرام کے خلاف کافی مہم بھی چلائی۔ میرے خطاب کے بعد ایک با پردہ خاتون نے مجھے اسی ہال میں کہا کہ مسلمان پہلے ہی تقسیم ہیں اور آپ بھی جموں کشمیر کو ایک الگ ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ میں نے مختصراً کہا کہ ہم پہلے ریاست کی وحدت کی بحالی چاہتے ہیں جس کے لیے غیر ملکی افواج کا انخلاء ضروری ہے ہندوستان اور پاکستان کی افواج اپنے اپنے قبضے میں جموں کشمیر ایک دوسرے سے نہیں چھین سکتیں۔ انہوں نے ریاستی عوام سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کرنےبوں گے۔ لیکن عام ترک مسلہ کشمیر کو حکومت پاکستان کی نظر سے دیکھتا ہیں جو خود دوغلی پالیسی کا شکار ہے ۔

یہ باتیں پروگرام کے اختتام پر ہوئیں اور پروٹوکول کا تقاضا تھا کہ سر راہ اس طرح کی گفتگو کو طول نہ دیا جائے البتہ ڈاکٹر طوقار  نے میری حوصلہ افزائی کے لیے اتنا کہا کہ انہیں کشمیریوں کے نقطئہ نظر کا بھی علم ہے۔

2016 میں ایک اور بڑے ادارے میں بھی مجھے دعوت دی گئی جس میں پاکستان کے سفیر مہمان خصوصی تھے۔ میزبانوں نے مجھے کہا کہ میں بھی گفتگو کے پینل میں شامل ہوں گا مگر بعد میں پتہ چلا کہ کشمیریوں کے خود ساختہ وکیل نے کہا کہ اس کی موجودگی میں کسی کشمیری کے بولنے کی ضرورت نہیں۔ ترک ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ میں اس پروگرام میں کسی قسم کی بدمزگی کا الزام نہیں لینا چاہتا تھا اس لیے پروگرام میں تو خاموش رہا مگر بعد میں ترک میزبانوں کو لکھا کہ "یہ کشمیریوں کے ساتھ بڑی دلچسپ یکجہتی کا اظہار تھا جس میں سب بول سکتے تھے مگر کشمیری نہیں بول سکتا تھا!” پاکستان کی یہی وہ دوغلی پالیسی ہے جو جموں کشمیر کے بیانیہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جسکی وجہ سے مسئلہ کشمیر آج تک کشمیریوں کا مسلہ بننے کے بجائے پاک- ھند علاقائی مسلہ بنا ہوا ہے جس سے پاکستان اب عملی طور پر دستبردار بھی ہو چکا ہے۔ ریاست جموں کشمیر کے جو لوگ ریاست کی وحدت کی بحالی چاہتے ہیں ان پر غیر اسلامی سوچ کا الزام لگایا جاتاہے لیکن یہاں دو سوالات پیدا ہوتے ییں۔ کیا جس اسلامی سوچ کے تحت کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کی باتیں کی جاتی ہیں کیا وہ اسلام پاکستان میں کہیں نظر اتایے؟ پاکستان اپنے نصاب اور بود و باش کے اعتبار سے دن بدن غیر اسلامی بنتا جارہاہے۔ بڑے اداروں کے بظاہر بڑے اہلکار نوکری سے فارغ ہوتے ہی بیرون ملک بنگلے خرید کر پاکستان کو ہمیشہ کے لیے بھول جاتے ہیں۔

محب وطن پاکستانیوں کو تو پہلے ان عناصر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کی پاکستان میں دوران ملازمت بھی وفاداریاں کہیں اور ہوتی ہیں۔ دوسرا کشمیر اور فلسطین کو جو اسلامی ممالک اسلام کے لیکچرز دیتے ہیں وہ آزاد ہونے کے باوجود خود متحد کیوں نہیں ہوتے؟۔ ترکی، شام ، ایران اور عراق سب ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں ییں۔ پاکستان، ایران اور افغانستان کے تعلقات بھی اطمینان بخش نہیں جبکہ عربوں کا تو کوئی حال ہی نہیں۔ اسلامی ملکوں کے درمیان اگر اتحاد ہو تو تب ہی وہ ایک دوسرے یا کشمیر اور فلسطین کی مدد کر سکتے ہیں۔ محض کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کو اسلام پرستی کے لیکچرز دینے سے اسلامی کو سرفرازی نہیں مل جائے گی۔ جہاں تک یہ الزام کہ وطن پسندی اسلام پسندی کی ضد ہے اور وطن سے محبت غیر اسلامی ہے سراسر غلط سوچ ہے۔ نظریے کی آبیاری زمین پر ہوتی ہے نہ کہ آسمان پر اور وطن سے محبت کا مطلب اپنے خونی و خاندانی رشتوں سے محبت ہوتی ہے جنکے درمیان انسان جینااور مرنا چاہتا ہے اسکے لیے ڈاکٹر طوقار کی وطن میں مرنے کی خواہش ہی ایک بڑی مثال یے۔ وطن میں انسان کے خونی رشتے ہوتے ہیں جن سے مرتے وقت دوری کا احساس اور بھی بڑھ جاتاہے۔ یہی انسانی درد کشمیریوں، فلسطینیوں اور کردستانی مسلمانوں کے سینوں میں بھی پنپ رہا ہے جنکی کئی نسلیں جدائی میں چل بسیں اور نہ جانے دردوں کا یہ سفر مزید کتنا طویل ہے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*