جنسی درندگی کا عفریت، وجوہات اور تدارک : زارون علی

تحریر : زارون علی

آج ہم اس ترقی یافتہ دور کے اس موڑ پر کھڑے ہیں جہاں عصمتیں محفوظ ہیں نہ ایمان۔ جنسی درندگی کا عفریت ہمیں سالم نگلنے کو منہ کھولے کھڑا ہے اور ہم بے بسی کی مورت بنے اسے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھ رہے ہیں کہ نہ جانے کب ہمارا گھر یا ہماری ذات اس کی لپیٹ میں آ جائے۔ ہم نہ اس کی وجوہات تلاش کرنے پر آمادہ ہیں نہ ہی تدارک کی جانب توجہ دینا چاہتے ہیں۔

ہم مجرموں کو سزا دینے کے بجائے، انہیں نشان عبرت بنانے کے بجائے ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھائے ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے کی تگ و دو میں لگے ہیں جب کہ یہاں معاملہ صنف، عمر، لباس اور رشتوں سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ انسانی لباس میں چھپے ان بھیڑیوں سے کوئی رشتہ، کوئی صنف اور کسی عمر کے لوگ بھی محفوظ نہیں ہیں۔ نہ یہ لباس کا معاملہ ہے نہ ایک اور چار شادیوں کا۔ یہ اب نفسیات کا مسئلہ بن چکا ہے کیوں کہ اسے تسکین کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔جس شے کو ذہنی سکون کے حصول کے لیے استعمال کیا جانے لگے وہ نشہ بن جاتی ہے اور نشے کی طلب سے اچھے برے، صحیح غلط کا فرق معدوم ہوجاتا ہے۔

اگر ہم اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں، اپنے بچوں، بچیوں اور خواتین کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو جڑیں کھود کر وجہ تلاش کرنی ہوگی کہ آخر کیوں ہماری نسل اس قدر عمل بد میں مبتلا ہوچکی ہے کہ صحیح غلط، اچھے برے، اپنے پرائے، بڑے بچے ہر فرق کو بھلا کر جنسی تسکین کے حصول کے لیے بے چین ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں نہ جانے کتنے معصوموں کی عزت تار تار کردی جاتی ہے۔ روز نہ جانے کتنی آبروئیں بے ردا ہوتی ہیں۔ گھر، درس گاہیں، محلے یہاں تک کہ عزیز و اقربا اور ذاتی گھر تک محفوظ نہیں رہے۔ عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر ہم کیوں صرف ٹوئٹر پر رائے دے کر، چند ٹرینڈز چلا کر، فیس بک پر لعنت ملامت کرکے اور انسٹاگرام پر چند تعزیتی کلمات ادا کرکے سمجھتے ہیں ہم نے اپنا فرض ادا کردیا اور ہم اس سے محفوظ ہوگئے۔

زنا بالجبر، جنسی درندگی اور ہم جنس پرستی کے بڑھتے رجحان کی روک تھام کے لیے ہمیں اس کی وجہ تلاش کرنی ہوگی، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کیوں ہمارے معاشرے میں جسم کی یہ بھوک دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کیوں ہم کسی کے ساتھ بھی زیادتی کرنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور پھر دلائل سے اسی شخص کو غلط بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم ریپ وکٹم کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں کہ لباس ایسا ہوگا، اس وقت گھر سے باہر نکلی ہوگی، خود ہی گئی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ یہ جانے بغیر کہ وہ پہلے ہی ٹراما سے گزر رہی/رہا ہے۔ کوئی بھی ایسا انسان جس کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کیا گیا ہو وہ نفسیاتی طور پر ایسے ذہنی دباؤ اور مسلسل دھچکے کی کیفیت میں چلا جاتا ہے جسے ماہرین پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم ڈس آرڈر یا پی ٹی ایس ڈی کہتے ہیں، جو ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال 2020 میں 415 بچوں، 250 بچیوں، 842 خواتین اور 7 مخنث کے ریپ یا گینگ ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان تمام واقعات کے پیچھے یقیناً کئی محرکات ہوں گے۔ تربیت کی کمی، دین سے دوری، بنیادی معلومات سے بے خبری، طاقت کا زعم، تسکین کا حصول، تفریح یا کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ بچوں کے بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد والدین کی جانب سے درست رہنمائی فراہم نہ کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں جنسی ملاپ یا جماع کو کسی گناہ یا کریہہ عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں بات چیت کو فعل ممنوعہ سمجھا جاتا ہے تو بچے کیوں کہ اس دور میں کئی طرح کی جسمانی تبدیلیوں سے گزر رہے ہوتے ہیں تو ایسی معلومات کے لیے انٹرنیٹ یا دوستوں سے رابطہ کرتے ہیں جہاں سے ملا مواد ٪90 انہیں غلط رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ہمارے یہاں کے والدین اگر اس فعل کی اہمیت اور ضرورت سے بچوں کو بخوبی اور بروقت آگاہ کریں تو بہت سے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔ بچوں کو اس جرم کی سنگینی کا احساس دلائیں، اللہ کی ناراضی اور عذاب کے بارے میں بتائیں۔

ماہرین نفسیات کے مطابق کئی مختلف نفسیاتی اور طبی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ریپ کے مرتکب افراد میں کسی کا جسمانی یا نفسیاتی دکھ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، وہ تقریبا? بیماری کی حد تک خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خاص طور پر خواتین کے خلاف جارحانہ و انتقامانہ جذبات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔
امریکی ریاست ٹینیسی کی یونیورسٹی آف دا ساؤتھ کی نفسیات کی ریسرچر اور پروفیسر شیری ہیمبی کا کہنا ہے، ”جنسی زیادتی کے کئی واقعات میں جنسی حملہ جنسی جذبات کی تسکین یا جنسی دلچسپی کو پورا کرنے کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ اس کا مقصد دوسرے لوگوں کو ذلت آمیز طریقے سے مغلوب کرنا ہوتا ہے“۔ اگرچہ ریپ کے مرتکب کئی افراد میں دیگر نفسیاتی بیماریاں بھی پائی جاتی ہیں تاہم کلینیکل سائیکالوجی کے ماہرین کے مطابق ایسا کوئی نفسیاتی عارضہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا، جو کسی بھی شخص کو اس امر پر مجبور کرے کہ وہ کسی کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرے۔ اگر ان تمام مسائل کے حل کی جانب توجہ دی جائے تو ہمیں اپنے بیٹوں اور مردوں کی درست خطوط پر تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ان تمام بڑھتے ہوئے واقعات کے دیگر محرکات کے ساتھ ساتھ مجرم کی پشت پناہی اور قانونی طور پر سزا نہ دینا بڑی اور اہم وجہ ہے۔
ہمیں جہاں مردوں اور لڑکوں کی تربیت کی ضرورت ہے وہیں بچوں، بچیوں اور خواتین کو بھی اپنی حفاظت کے لیے تربیت دینا ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ بنیادی تعلیم کے ساتھ ہی اس حوالے سے بھی باقاعدہ تربیت کی جائے تاکہ ان کی جانب کوئی نگاہ غلط بھی نہ اٹھ سکے۔

دین سے دوری اور مغربی روایات کی تقلید بھی ان واقعات میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر جہاں نامحرم رشتوں اور ناجائز تعلقات کی فراوانی ہے وہیں زنا اور زنا بالجبر بھی معاشرے میں عام ہوگیا ہے۔ دینی احکامات کو مد نظر رکھتے ہوئے بچوں کی شادی میں جلدی کرنا بھی ایک حل ہے۔ دین میں جہاں نکاح کی اہمیت بتلائی گئی ہے وہیں شہوت کے توڑ کے لیے روزے رکھنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ دینی احکامات کی پاسداری ہمیں اس عفریت سے نجات دلانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

حکومت وقت کی جانب سے بھی اس معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے 15 دسمبر 2020 کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ملک میں ریپ کے واقعات کی روک تھام اور اس سے متعلق کیسز کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اینٹی ریپ (انویسٹگیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020 کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔ ہمارے یہاں اکثر زیادتی کے بعد اسے چھپایا جاتا ہے اور بدنامی و خوف کے ڈر سے ایف آئی آر درج نہیں کروائی جاتی جب کہ ہمارا یہ عمل مجرم کو شہہ دلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے تمام کیسز کو بروقت رپورٹ کروایا جانا اشد ضروری ہے اور اس معاملے میں متعلقہ افراد اور اداروں کو بھی اپنی ذمے داری بخوبی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ سوچنے کا وقت نہیں ہے کہ کیسے کس طرح شروعات کی جائے یہ ابھی اور اسی وقت عملی تدبیر کا وقت ہے ورنہ نہ جانے کتنی معصوم کلیاں روند کر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دی جائیں گی۔ ہمیں اس تعفن زدہ معاشرے سے خود کو نکالنا ہوگا ہماری اپنی نسل کی حفاظت کے لیے۔

تعارف: raztv

3 تبصرے

  1. جی اسلام علیکم
    زارون علی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ایک با کمال شخصیت ہیں۔ لفظوں کے کھلاڑی ہیں۔ کوئی بھی موضوع سخن ہو نہایت احسن طریقے سے اسکو بیان کرتیں ہیں۔ آج کے موضوع کیلئے بھی زبردست الفاظ کے چناؤ کا استعمال کیا ہے۔ جو زبردست لفظوں کا جال بنا ہے۔ میں کوئی تبصرہ نہیں کرسکتی لیکن اس تحریر کو سراہنا چاہوں گی۔ کیونکہ آپ کی تحریر سراہے جانے کے قابل ہے۔ آج اس تحریر میں جو اپنے لکھا ہے۔ ہمارے معاشرے ، اور اس ملک کا دردناک المیہ بیان کیا ہے۔ جس کا انتشار دن بادن بڑھتا جارہا ہے۔ کئ معصوم جانیں اسکی ذد میں آکر اپنا خوبصورت بچپن، اپنے خواب یہاں تک کہ اس جہاں سے بے قصور ہی اپنی ماؤں کو تڑپتا چھوڑ کر منوں مٹی تلے جا سوتیں ہیں۔ اے درندہ صفت کیا تجھے ان کی چیخیں پکار تمہاری بےحسی کو روک نہیں سکتی۔ ارے وہ تتلیاں جو خواب سجانا شروع کرتی ہیں ان آنکھوں سے وہ خواب نوچ کے ان کو بے دردی سے سلا دیا جاتا ہے۔ آج زارون علی نے اپنی تحریر میں اس موضوع کے تمام نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ درندوں کی درندگی، انکی حوس، ہمارے مستقبل کے ستارے دن بدن انکا شکار بن رہیں ہیں۔ ہمارے رائٹر نے اس تحریر میں بہت خوب بات کی کہ ہمیں اپنے بچوں کو آگاہی دینی چاہیے ان کو ہر اچھے برے کی تمیز کا بتایا جانا چاہئیے۔ ماحول کی اس بڑھتی گندگی کابتاؤ یہ ایک اکیلا انسان ختم نہیں کرسکتا۔ نہ ہی آسانی کیساتھ ہم اسکا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ محافظ کی صورت میں یہ لٹیرے جگہ جگہ بیٹھے ہیں۔ ہمارے بچے، بچیاں، لڑکیاں، عورتیں، ہر کوئی اس چیز کا شکار بنتیں ہیں۔ بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گی کہ یہ اپنی حوس میں اندھے لوگ فی میل جانور کو نہیں چھوڑتے ۔ اب بات یہ ہے کہ اسکی روک تھام کیلئے ہمیں اپنے بچوں کو آگاہی دینی چاہیئے۔ باقاعدہ سکول، کالج اور یونیورسٹیز میں باقاعدہ تربیتی نصاب ہونا چاہیے، ماحول سے نبٹنے کیلئے ہمیں تربیتی نظام رائج کرنا چاہیے۔ روز مرہ کی بڑھتی شرح ہمارے اسلامی ملک پر سیاہ دھبہ ہے۔ یہ ایک عمدہ تحریر تھی۔ ہر چیز کا نقطہ نظر بیان کیا گیا۔ اللہ تعالی ان درندوں کو نست نابود کریں۔ معصوم جانوں کو اپنی حفاظت میں رکھیں۔ اللہ تعالی آپکا اور ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین

  2. سب سے پہلے تو لکھاری کو بہت بہت مبارکباد، اللہ پاک نے جس قیمتی صلاحیت سے نوازا اس کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرے کے ایک ایسے موضوع پہ قلم اٹھانا جس پہ لوگ بات کرتے کتراتے ہیں، برا سمجھتے ہیں۔ آپ نے اس موضوع پہ آرٹیکل لکھا اور بہترین لکھا، بغیر جذباتی ہوئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت کو تسلیم کیا۔ قلم کار نے اپنے قلم کا حق ادا کیا اب وقت ہے ان تمام باتوں پہ عمل پیرا ہوا جائے، یہ کسی ایک فرد کی نہیں معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کے بچوں، لڑکے، لڑکیوں کو صحیح وقت پہ ان تمام باتوں سے آگاہ کریں جو ان کی بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ زندگی گزارنے میں اہک اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ بچوں کی تربیت والدین ان خطوط پہ کریں کہ وہ بڑے ہوکے معاشرے کے لیے سود مند ہوں نہ کہ بگاڑ کا باعث بنیں۔ تربیت وہ پہلی اینٹ ہے جس پہ انسانی شخصیت کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔
    ان سب باتوں کے بات حکومت سے اپیل ہے ان جیسے درندوں کو جلد از جلد عبرت ناک سزا دی جائے اور معاشرے سے ان ناسور کا خاتمہ کیا جائے۔
    اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سب کی عصمتوں کو محفوظ رکھے، ہمارے ملک پاکستان کے بیٹے بیٹیوں کو ان جیسے درندوں سے محفوظ رکھے آمین۔
    لکھاری کے لیے دعا گو ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو یونہی قلم کا حق ادا کرنے کی توفیق دے آمین۔

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*