تحریر: ارم صباء
سکون ایک غیر مادی چیز ہے۔ اور انسان اس کو مادی وسائل کے زریعے حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتا ہے لیکن وہ جسمانی سکون حاصل کرنے میں کچھ حد تک کامیاب ہو گیا ہے لیکن روحانی سکون سے وہ کوسوں دور ہے۔ آج کے دور میں قلبی سکون حاصل ہو جانا نا ممکن سی بات محسوس ہوتی ہے ہر نفس دکھی اور پریشانی کا شکار ہے۔کوئی معاشی پریشانی کا شکار ہے تو کوئی بیماری میں مبتلا ہے۔کوئی سیاست کا دکھی رآگ الاپتا ہے تو کوئی سماج کے دکھوں کے ہاتھوں پریشان ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ اک غیر مادی وجود جس انسان کے پاس ہوگا تو سب کچھ انسان کو حاصل ہے لیکن اگر یہ انسان کے پاس نہیں ہو گا تو انسان سب کچھ ہونے کے باوجود بھی خالی ہے۔
یہ کیسی مادی ترقی ہے کہ جس میں منزل و مقصود کی خبر نہیں اور نہ پرواہ ۔مدعائے حیات سے کیسی لا تعلقی ہے ۔ یہ جسمانی آرام تو روحانی تنزلی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ ہمیں یہ جسمانی آرام زہنی سکون کیوں نہیں دے رہا۔ ہم تو نہ صرف روحانی بلکہ جسمانی طور پر بھی ہم کمزور ہوتے جا رہے ہیں ہماری خوشیاں ہمارے اندر غم اور اندیشوں کو جنم دے رہی ہیں۔ بے سکونی کی آکاس نیل ہماری زندگی کے درخت کو کھا رہی ہے اور مسلسل کھائے جا رہی ہے۔ انسان کا ظاہری سکون بھی باطنی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ہم یہ رآگ آلاپتے ضرور ہیں کہ ہم پریشان ہیں لیکن پریشانی کی وجوہات تلاش نہیں کرتے۔
لا حاصل آرزووُں کی کثرت نے انسان کو دکھوں کو کھائی میں دھکیل دیا ہے ۔کثرت مال ہو یا کثرت اولاد دکھ کی وجہ بن جاتی ہے۔ کہیں سکون نہیں ملتا۔ وہ دعا جو کئی سالوں سے انسان اپنے سکوں کے لئے مانگتا ہے بے سکونی کی علامت بن جاتی ہے اور انسان پکار اٹھتا ہے کہ مجھ سے یہ خواہش چھین لے میرے مولا ۔مجھے یہ سکون نہیں دیتی۔ ہم اپنی خواہشات کے قلی ہیں اور یہ خواہشات دولت مال وجود سامان کی ہیں ۔ اگر ہم زرا غور سے سوچیں تو معلوم۔ہو گا کہ یہ تو محض کرب ہیں ۔یہ وزن اک کرب ہے۔ بینکوں میں اتنے پیسے بھرے پڑے ہیں اوران پیسوں کے باوجود اندیشہ ہی ختم نہیں ہوتا ۔ پیسہ تو آ گیا ہے مگر برکت چلی گئ ۔ یعنی برکت اور سکونِ قلب جو تھے ختم ہو گئے ۔ اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ نہیں ملے گا سکونِ قلب مگر میرے ذکر سے ۔ آپ سے ذکر کی دولت چِھن گئ ہے ۔ امیر آدمی کو بہت پریشانی ہے ۔
یہ ہسپتال ایسے تو نہیں بن رہے بندے بہت بیمار ہو رہے ہیں اور پھر ہسپتالوں میں بھی داخلہ نہیں مل رہا ۔ لاہور میں کتنے ہی ہسپتال بن گئے ہیں ۔اور ہر آدمی اپنے بجٹ میں ہسپتال کا خرچہ رکھتا ہے ۔ آخر سکوں کیسے میسر آئے۔کیا مادی چیزوں سی غیر مادی سکون کا حصول ممکن ہے۔ میرے نزدیک انسان جب تک مقصد خالق ہستی کو نہ سمجھے وہ سکون حاصل نہیں کر سکتا۔خالق کا قرب ہر حال۔میں سکون عطا کرتا ہے کاش ہم مقامِ شوق کو سمجھ سکیں۔ مقام شوق ایک ایسا مقام جو مقام مفادات سے یکسر بلند اور مختلف یے۔ مقام شوق تو روحانی مقام ہے۔اس کا تعلق دل اور روح سے ہوتا ہے مقامِ مفادات کا تعلق جسم مادہ اور مادی ترقی سے ہے۔ جب انسان فنا کی حقیقت کو سمجھ جائے کہ ہر شے نے فنا ہونا ہے تو فنا کی تسلیم میں اس مسلسل کرب سے نجات ہے۔ خالق حقیقی کی اطاعت دکھوں سے نجات اور حقیقی سکون کا واحد زریعہ ہے اور یہی انسان کا مدعائے حیات بھی ہونا چاہیے
روح کو جس ماحول سے پھونکا سے گیا تھا شائد وہاں کا سکون اسے اس اندھیر نگری میں بے چین کیئے رکھتا ہے۔