بچوں اور ماؤں کی نفسیات! قیوم راجہ

تحریر: قیوم راجہ

بچوں اور ماؤں کی نفسیات کے کئی پہلو ہیں لیکن آج میں اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں صرف ایک پہلو کا زکر کروں گا اور وہ ہے کسی بھی بچے ہر اپکی شفقت کا اثر اور بچوں کی مائوں کا رد عمل۔ میری عمر 9 سال تھی کہ میرے والد صاحب وفات پا گے تھے۔ ہمارے دو چچے تھے جو نو عمری میں غیر فطری موت کا شکار ہو گے۔ ہمارا زیادہ تر آنا جان نھنیال ہی تھا۔ میرے ایک ماموں کا نام کرمداد خان تھا۔ پرائمری سکول تو ہمارے گھر کے قریب ہی تھا لیکن جب میں مڈل سکول میں داخل ہوا تو میرے ماموں مجھےموچی کے پاس لے گے اور اسے کہا کہ اسکے پیروں کا سائز لو۔ موچی نے بوٹ اتنے خوبصورت بنائے کہ ہر کوئی مجھے پوچھتا کہاں سے لیے تو میں فخر سے کہتا میرے ماموں نے بنوا کر دیے ہیں۔ ان دنوں بنے بنائے بوٹ بہت کم لیے جاتے تھے ۔

زیادہ تر مقامی موچیوں کی دکانوں پر تیار کیے جاتے تھے۔ ماموں کرمداد صاحب نے ہر عید پر میرے لیے نئے بوٹ اور کپڑوں کے جوڑے کی روٹین بنا لی۔ ان سے بڑے ناموں کا نام تھا عناعیت اللہ خان وہ ببلی قسم کے ہنس مکھ اور ہر محفل کی رونق ہوا کرتے تھے۔ وہ خوش مزاج بھی تھے مگر سخت گیر بھی۔ ہوشیاری چالاکی کرنے والے کو سبق سکھانے میں بھی دیر نہیں کرتے تھے۔ میری عمر ابھی دس سال کی تھی تو وہ مجھے پنڈی اپنے ساتھ لے گے۔ انہوں نے مجھے بڑے مزے کروائے۔ اپنے سسرالیوں کے ساتھ وہ بڑے ٹھٹھے مزاق کیا کرتے تھے۔ انکے ایک برادر نسبتی راجہ شیر باز خان پنڈی ایک کنسٹرکشن کمپنی کے مینجر تھے۔ ماموں مجھے انکے پاس لے کر گے۔ انہوں نے تعمیر کی جانے والی ایک عمارت کے سامنے میدان میں محفل سجائی۔ کیک بسکٹ اور چائے سے ہماری تواضع کی۔ بسکٹ اتنے لزیز تھے کہ آج بھی منہ میں پانی اتاہے۔ مانوں اہنے برادر نسبتی کے ساتھ کچھ زیادہ ہی بے تکلف تھے کہ وہاں کافی وقت گزر گیا۔ مجھے ٹائلٹ میں جانے کی حاجت ہوئی تو میں نے ان دونوں کی گفتگو میں مخل ہونے کے بجائے خود ہی اٹھ کر عمارت میں لیٹرین تلاش کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں پریشان ہو گے کہ بچہ چھوٹاہے۔

پہلی بار بڑے شہر میں آیا ہے کہیں کھو نہ جائے۔ میں واپس آیا تو ماموں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہاں چلے گے تھے۔ میں نے کہا پیشاب کرنے گیا تھا۔ ماموں کے برادر نسبتی کھل کر ہنسے تو ماموں نے پوچھا شیربازا تجھے کیاہوا۔ شیر باز صاحب نے سوچا پینڈو لڑکا ہے ۔پہلی بار بڑے شہر آیا ہے اسنے لازمی پیشاب کسی کونے میں کیا ہو گا۔ ماموں اور انکے برادر نسبتی ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف سکور کرنے کی کوشش کیاکرتے تھے اسلیے راجہ شیر باز صاحب نے سوچا کہ آج میں ناتو کو (میرے ماموں کو لاڈ سے ناتو کہتے تھے) کو خوب تنگ کرونگا ۔ انہوں نے میرے ماموں کو شرمندہ کرنے کے لیے مجھے پوچھا ” کہاں ٹٹی کر آئے ہو؟” میں نے کہا لیٹرین میں۔ انہوں نے پوچھا وہ تجھے کیسے ملی ۔ میں نے کہا میں نے ایک ملازم سے ہوچھا تو اس نے مجھے بتا دیا وہ کہاں یے۔ میرے ماموں نے بڑے فخر سے اپنے برادر نسبتی کو کہا کہ تمہیں پتہ ہونا چاہیے یہ کس کا بھانجا یے۔ ان ماموں کے ساتھ میری بڑی بے تکلفی ہو گئی اور وہ اکثر مجھ سے سیف الملوک سنا کرتے تھے۔ جس دن میں یورپ گیا تو وہ مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر میرے اوجھل ہونے تک مجھے دیکھتے رہے۔

دوبارہ ملاقات نصیب نہ ہو سکی۔ سب سے بڑے ماموں ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر راجہ سیداللہ خان تھے جنہوں نے ملازمت کے بعد لبریشن لیگ میں شمولیت اختیار کی اور سٹیٹ کونسل کا الیکشن لڑا۔ لوگ انہیں آعلی اصول و اوصاف کی وجہ سے بڑا راجہ کہا کرتے تھے۔ نظریاتی سیاست کا جزبہ انکی وجہ سے پیدا یوا۔ ہمارے پرائمری سکول کے جب امتحانات ہوتے تھے تو امتحانات کے نگران گائوں کے ایک دو بزرگوں کو مبصرین کے طور پر بلا لیا کرتے تھے۔ میری پانچویں کلاس کا جب امتحان ہوا تو ہمارے پھوپھڑا راجہ شاہ ولی خان اور نمبر دار سردار افسر خان کو بلایا گیا۔ ان دنوں پرائمری سکولوں میں زبانی سوالات بھی ہوا کرتے تھے۔ جب میں نے پوچھے جانے والے زبانی سوالوں کا جواب دیا تو نگران نے سردار افسر صاحب سے پوچھا یہ کس کا بچہ ہے۔ انہوں نے کہا یہ راجہ مولداد خان مرحوم کا یتیم بچہ ہے۔ مجھے سمجھ نہ آئی کہ نگران نے میرے بارے یہ سوال کیوں کیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ میرے جوابوں سے بہت خوش ہوا تھا۔ امتحان کے تین دن بعد سردار افسر صاحب بابا شاہ ولی خان صاحب کے گھر بیٹھے ہوئے تھے ۔ انکے گھر کے نیچے سے راستہ گزرتا تھا میں سیڑھیاں چڑھ کر انہیں سلام کرنے چلا گیا۔ وہ کھڑے ہو کر مجھے ملے ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ مجھ جیسے پرائمری سکول کے بچے کو سردار افسر صاحب جیسی بڑی شخصیت نے اتنی عزت دی ہے۔ امتحانات کے نتائج آنے پر معلوم ہوا کہ نگران نے سردار افسر صاحب کو بتا دیا تھا کہ میں اورل ٹیسٹ میں فرسٹ تھا۔ بازار ہمارے گھر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا ۔

ماسٹر وزیر محمد صاحب جو مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آئے تھے نے نتائج کے اعلان سے پہلے ہی پانچویں کلاس کو کہہ دیا کہ چھٹی کی کتابیں لے لو ۔ بازار جاتے ہوئے راستے میں جنگل آتا تھا ۔ اکیلے ڈر لگتا تھا ۔ سوچ رہا تھا کہ کس کے ساتھ جائوں تو اتنے میں پڑوس میں بابا شاہ ولی خان صاحب کو سر پر کلا باندھتے ہوئے دیکھا۔ یہ انکی بازار جانے کی نشانی ہوا کرتی تھی۔ جب وہ گھر سے نکلے تو میں بھی پیچھے چل پڑا۔ انہوں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو۔ میں نے کہا کتابیں لینے بازار جا رہا ہوں۔ ان کو بھی نگران نے بتا دیا تھا کہ میں اپنی کلاس میں فرسٹ آیا ہوں۔ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور گنے بنا پیسے دیتے ہوئے کہا کتابیں میری طرف سے لے لینا ۔ یہ بابا اتنے سخت گیر تھے کہ اچھے بھلے لوگ ان سے ڈرتے تھے مگر میری ان سے دوستی ہو گئی۔ رینجر منشی خان میرے والد صاحب کے کزن تھے۔ ہم دونوں ایک دن مال مویشی کی دیکھ بھال کے لیے ایک پہاڑی پر بیٹھ کر گپیں لگا رہے تھے تو کہنے لگے میں نوکری کے لیے ٹیسٹ انٹرویو دینے جا رہا ہوں۔ دعا کرنا پاس ہو جائوں اور اگر نوکری مل گئی تو سب سے پہلی تنخواہ سے تجھے ایک خاص تحفہ لے دوں گا۔ میں یورپ گیا تو مقامی زبانیں سیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ ایک دن امسٹرڈام ہالینڈ کے ایک پارک میں گھوم رہا تھا کہ دو ضعیف العمر ڈچ خواتین میں سے ایک نے مجھے اشارہ کر کے پاس بلا لیا۔ میں انکے پاس بنچ پر بیٹھ گیا۔ وہ مجھ پر ترس کھانے لگیں اور میں ان پر۔ وہ مجھ پر اس لیے ترس کھا رہی تھیں کہ ان کے پوچھنے پر میں نے کہا میری ماں یہاں نہیں ہیں اور مجھے ان پر اس لیے ترس ا رہا تھا کہ انہوں نے کہا انکے بچے تو ہیں مگر دیکھے ہوئے عرصہ بیت گیا۔ میں نے معصومانہ انداز میں کہہ دیا کہ مجھے بھی آپ بیٹا ہی سمجھیں اور انہوں نے ایساہی سمجھا۔ گھر کا پتہ دیا جہاں آنا جانا رہا مگر یہ رشتہ ہماری بچگانہ سوچ اور ناتجربہ کاری کا شکار ہو گیا۔ گوئٹے انسٹیٹیوٹ پیرس کی لائبریری کا وزٹ کرنے گیا تو اسکی جرمن انچارج روسویٹا نامی خاتون نے میرا چہرہ مہرہ دیکھ کر پوچھا کہاں کہ ہو؟ میں نے کہا کشمیر سے ہوں۔

اسکے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی اور کہنے لگی میں اضافی کام کر کے ہر سال تین ماہ کی اضافی چھٹیاں لے کر سرینگر بوٹ میں رہتی ہوں۔ آپ لوگ بہت مہمان نوازہیں۔ میں جب مہاترے کیس ۔میں گرفتار ہوا تو کئی سال وہ مجھے برطانیہ جیل میں خطوط لکھتی رہی۔ جیل جانے سے قبل میں نے برطانیہ میں اپنے ایک کزن اسحاق خان کی کم سن بیٹیوں کو تحفے لےکر دیے جو انہیں آج تک یاد ہیں۔ برطانیہ اسیری کے دوران بے شمار کشمیری گھرانے اپنے بچوں کی طرف سے مجھے خطوط لکھوایا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ وطن واپسی ہر میری والدہ کو ملنے بھی آیا کرتے تھے۔ میری والدہ نے زندگی کے آخری لمحے تک ایک ایک نام یاد رکھا۔ چند دن قبل میری اہلیہ کے چچا راجہ جمیل خان فوت ہوئے تو سب سے زیادہ عزیزوں کے بچے روئے کہ وہ ہر کسی کے بچے کے ساتھ شفقت سے پیش آتے تھے۔ میری ایک کزن کی چار سالہ بیٹی مجھ سے اس لیے بہت پیار کیا کرتی تھی کہ کسی شادی میں مجھے دیکھتی تو میں گود میں بٹھا لیتا جبکہ اس کا حقیقی ماموں کہتا ” پرے ھٹ کپڑے نہ خراب کر.” جب میں بری ہو کر آیا تو اس بچی کی والدہ نے ایک صوفی کے دربار پر راہگیروں کو میری رہائی کی خوشی میں بکرے ضبع کر کے کھلائے ۔

سابق وزیر تعلیم مطلوب انقلابی اپنی حادثاتی موت سے چند ہفتے قبل ہمارے گھر ائے اور میری بیٹیوں کو ہدیہ دیا۔ وہ آج بھی انہیں اسی حوالے سے یاد کرتی ہیں۔ یہ تو خیر انسانی رویے ہیں جانوروں کے بچوں کی ماں بھی اپنے بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے والوں کو پہچانتی اور احترام کرتی یے۔ بری ہونے کے بعد اپنا مکان بننے تک میں اپنے بڑے بھائی کے گھر رہا۔ وہاں سیڑھیوں کے نیچے ایک کتیا نے بچوں کو جنم دیا۔ اسی عمارت کے نچلے حصے میں ہمارے کزن پروفیسر جاوید قمر صاحب کا سکول تھا۔ ایک دن سکول کے بچے اس کتیا اور اسکے بچوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے کہ کتیا خونی آنکھوں سے ان پر واپس حملہ کرتی اور سکول کے لڑکے ڈر سے بھاگ جاتے۔ جب میں گیا تو کتیا زمین پر سر رکھ کر خاموش ہو گئی کیونکہ میں کتیا کے بچوں کے لیے وہاں ایک برتن میں پانی رکھا کرتا تھا۔ میں نے سکول کے لڑکوں کو کہا کہ کتیا کے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ سردی کا موسم ہے۔ انہیں ابھی یہاں سے نہ نکالو ۔ جب تھوڑے بڑے ہوئے تو میں خود انہیں کسی کو دے دوں گا۔ پلا پوسا انسان ہو یا جانور ہر کوئی لے لیتا ہے۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ شفقت کی ماں شفقت ہے۔ اگر کوئی چاہتا ہے کہ بچے بڑے ہو کر معاشرے کی خدمت کریں اور انسانوں کو انسان سمجھیں تو ان کے ساتھ اس وقت شفقت سے پیش آئیں جب وہ بڑوں کے محتاج ہوتے ہیں اور ماں دنیا کے چائے کسی بھی خطے رنگ نسل اور مزھب کی ہو وہ اپنے اوپر کیے جانے والے احسان سے زیادہ اس کے بچوں پر کسی انسان کی شفقت کو زیادہ اہمیت دے گی۔ جب وہ اپنے بچوں کو بتائے گی کہ بچپن میں انہیں کون کس طریقے سے پیش آتا تھا تو بچے اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*