تحریر : افتخار احمد
گزشتہ دن کوئی تین بجے شہر کے مشہور میاں وحیدالدین پارک کے ساتھ ذیلی سڑک سے گزر ہوا۔ ہمراہ میری ہمسفر میری شریک حیات بھی تھیں۔ کے جی سکول کا چوک جیسے ہی کراس کیا بائیں ہاتھ پہ سکول کے گیٹ کے پاس پاس ایک نقاب پوش خاتون تین بچوں کو لئے جون کی آخری تاریخوں کی شدید گرمی میں گرم سڑک پہ آلتی پالتی مارے تھوڑی سی چھاؤں میں بیٹھی تھی۔ ایک نومولود گود میں تھا۔ کوئی دو ڈھائی سال کا ایک گھٹنے کے ساتھ اور کوئی تین چار سال کی۔۔۔یا۔۔۔ کا۔۔۔ دوسرے گھٹنے کے ساتھ۔۔ عورت نے دودھ جیسے سفید چہرے پر ناک تک سیاہ برقعے کا نقاب چڑھا رکھا تھا اور سامنے کوئی برتن نما چیز تھی جو یقینا کشکولِ گداگری کے سوا کچھ نہ تھا۔۔۔
اف! دماغ ماؤف ہوگیا، سوچنے لگا کہ اس کا شوہر کدھر ہوگا۔۔؟ کیا کسی حادثے کا شکار ہوچکا ہوگا؟ کیا اس کو طلاق دے دی گئی ہوگی؟۔۔۔ کیا معذور ہو گیا ہوگا؟۔۔۔ کیا اس نے دوسری شادی رچا لی ہوگی۔۔۔۔؟ ان گنت سوالات اور گرمی میں گرم ننگی سڑک پہ تین بچوں کو ساتھ لئے دودھ کی طرح سفید چہرے والی عورت ہر سوال کا جواب بن کر ہتھوڑے کی طرح دماغ میں ضربیں لگا رہی تھی۔ میں سوچنے لگا۔۔ کہ ہم اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔۔۔ گزشتہ دنوں میں نے عورت کی آزادی پہ لکھا تھا تو تب سے کچھ نام نہاد ماجھے گامے جاہل علامے۔۔۔ مذھب کی تلواریں سونت کر مجھے اس طرح زدو کروب کرنے میں مصروف ہیں کہ جیسے میں نے بہت بڑا جرم کردیا یہ سب کچھ لکھ کر۔
اگر ہمارا معاشرہ اس عورت کو جس کی عمر کسی صورت تیس سال سے زیادہ نہیں ہے۔۔ اس قابل بنا دیتا کہ وہ نوکری کرسکتی۔۔۔ وہ کوئی ہنر جانتی ہوتی اور ایک چھوٹا سا کاروبار کرسکتی۔۔۔ وہ اس طرح اپاہج بن کے سڑک پہ نہ بیٹھی ہوتی بلکہ اس گرمی کے موسم میں بچوں کو لئے اپنے گھر میں ہوتی۔۔ سوال یہ ہے کہ وہ مذھب کے ٹھیکیدار جو پچھلے دو تین دنوں سے میرے کالم پہ منہ کی غلاظت گٹر سے بہتی جھاگ کی طرح اگل رہے ہیں کیا ان میں سے کوئی اس عورت کو اپنا سکتا ہے؟ کیا کوئی اس عورت سے شادی کرے گا؟ کیا اس کے تین بچوں کو باپ بن کر پالے گا؟ جواب ہے نہیں۔۔۔ ہم اس کے گول مٹول جسم کو لمبی زبان والے کتے کی طرح گھورتے ہوئے گزر تو جائیں گے مگر اس کو اپنائیں گے نہیں۔۔کیونکہ۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے؟ گھر والے کیا کہیں گے۔۔۔؟ محلے والے کیا کہیں گے۔۔۔؟ کسی کی عزت خاک میں مل جائے گی۔۔ کسی کی غیرت گلیوں میں لوگوں کے پاؤں تلے روندھی جائے گی۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم میں سے کوئی ایسی عورت کے ساتھ شادی نہیں کرے گا۔ ایسی فٹ پاتھیا عورت کا سہارا نہیں بنے گا۔۔ منٹو نے کہا تھا ہم عورت اسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو.. باقی ہمارے لیے کوئی عورت نہیں ہوتی بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے ان بھوکے کتوں کی طرح ہوتے ہیں جن کی ہوس زدہ نظر یں مسلسل گوشت پر ٹکی رہتی ہیں۔ جس معاشرے میں غیرت کے نام پر صرف اپنی بہنیں قتل کی جاتیں ہوں اور دوسروں کی بہنوں کی وڈیو بنا ئی جاتی ہو۔ وہاں جوان عورتیں بچے لئے سڑکوں پہ گوشت کی دکان ہی نظر آتیں ہیں۔ ہمارا مذھب، ہماری تہذیب، ہماری روایات۔۔۔ ہمیں ان کو گھور گھور کے دیکھنے اور ان کی عزت تارتار کرنے کی اجازت تو دیتی ہے لیکن کسی ایسی ہی خاتون کو گھر کی عزت بنانا گوارا نہیں کرتی۔۔ ہم متعہ کرلیتے ہیں۔۔ ہم مسیار بھی کرلیتے ہیں۔ کسی نازک اندام حسینہ کی گوری باہیں اپنے گلے کا ہار بھی بنا لیتے ہیں لیکن وقتی طور پر۔کسی پری چہرہ کو دلہن ایک رات کی بھی بنا لیتے ہیں۔۔ مگر ایسی کسی کو اپنا لینا ہم نے نہیں سیکھا۔۔۔ بس برباد کرنا ہی سیکھا ہے۔
اے سڑک پہ بچوں کے ساتھ بیٹھی خاتون! تم جانتی ہو۔۔۔ زندگی جھوٹ کہتی رہی ہے۔۔۔ بکواس کرتی رہی ہے۔ تم سے تمھارے بچوں سے۔ ہم سب سے۔۔۔ جھوٹ کہتی رہی ہے۔۔ سائبانوں کے لالچ۔۔ محبت بھری ضمانتیں۔۔ آسمان سے تارے توڑ لانے کی کہاوتیں۔ سب رسموں میں۔۔ سب عقیدوں میں جھوٹ بولتی ہے یہ زندگی۔۔ جھوٹ کہتی ہے کہ تم کسی کا سرتاج ہو۔۔ تم کسی کے سینے کی ٹھنڈک ہو۔۔۔ یہ سب جھوٹ ہے۔۔ تم بوقت ضرورت حضرتِ انسان کے استعمال کی چیز ہو۔۔ تم غیرت کے نام پہ بنی ایک لاٹھی ہو۔ جس سے حضرت انسان مختلف رشتوں کی صورت میں تمھیں ہانکتا ہے۔۔۔ یہی تمھاری حیثیت ہے۔۔۔ سڑک پہ بیٹھ کے بھیک تو مانگ سکتی ہو۔۔ اپنا جسم بیچ سکتی ہو۔۔ مگر معاشرے میں برابری کا مقام تمھیں یہ کبھی نہیں دیں گے۔ جیسے غریب کی جیب خالی ہوتی ہے ایسے ہی تمھاری زندگی بھی خالی۔۔۔ کسی نے اپنا لیا تو ٹھیک ورنہ خالی جیب کی طرح۔۔ جس میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔ جذبات بھی نہیں۔۔۔ آہیں اور سسکیاں بھی نہیں۔۔۔ ہاں بھوک ہوتی ہے۔ پچھتاوے ہوتے ہیں۔۔
خالی جیب اور آوارہ کتے میں قدر مشترک صرف اور صرف بھوک ہوتی ہے۔۔۔ خالی جیب آوارہ کتے کی طرح بھونکتی ہے اور آوارہ کتے کو ہر کوئی خالی جیب والے کی طرح دھتکار دیتا ہے۔ کتے کے جسم پہ جیب نہیں ہوتی۔۔۔ ہاں۔۔۔ کتے کے سامنے پیالہ ہوتا ہے۔۔ کتا صرف بھونک سکتا ہے لیکن آدمی کی طرح صدا نہیں لگا سکتا۔۔۔ جس کی جیب نہیں ہوتی۔۔ اس کے پاس پیالہ ہوتا ہے۔۔ آدمی ہو یا کتا۔۔ اس کو جو روٹی دیتا ہے وہی مالک ہوتا ہے۔اس کی مرضی کے بغیر نہ تو زندگی رہتی ہے اور نہ ہی پیٹ بھرتا ہے۔ مالک جب کہے چل پڑنا ہوتا ہے۔ جب کہے مسکرا دینا ہوتا ہے۔ غلامی میں صرف آداب بجالانے والے زندہ رہتے ہیں باقی راندہِ درگاہ ہو جاتے ہیں یا زندہ درگور۔۔
جب تک پیالہ نہیں تھا۔۔ حضرت انسان بھی آزاد تھا۔۔۔ پیالہ بنا تو بیوپار شروع ہوگیا۔کاروبار چل نکلے۔ بازار شیشے کے شوکیسوں میں تھرکتے پھڑکتے گوشت سے بھر گئے۔۔ گوشت کی دکانیں سج گئیں۔۔ اور دکانوں کے باہر بیٹھے، تانکتے جھانکتے کتے لمبی زبانیں نکالے سامنے بیٹھے بولیاں دینے لگے۔۔ سوکھے ببول کے درخت پہ بیٹھے گنجی گردنوں والے گدھ بھی تانک جھانک کے دیکھنے لگے کہ کیا ریٹ نکلتا ہے۔۔۔
قیمت اس کی لگتی ہے جس کے پاس ہنر ہوتا ہے۔۔ غیر ہنر مند کی قیمت نہیں لگتی۔۔ اس کے پیالے میں خیرات ڈالی جاتی ہے۔۔ یا پھر گردن میں طوقِ غلامی۔۔ ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح بند آنکھوں کے ساتھ ایک دائرے میں چکر لگاتے رہو اور اس خوا ب غفلت میں رہو کے مالک ڈنڈا لئے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔۔ پلٹ کے دیکھا تو کمر کی سوکھی چمڑی پہ ڈنڈے کا نشان بن جائے گا۔
ذرا دیر کے لئے سوچنا۔۔۔۔ پرندے کے پر کاٹ کے اگر گلی میں چھوڑو گے تو اسے کتے ہی گھور گھور کے دیکھیں گے نا۔ کوئی موقع دیکھ کے منہ میں دبا کے بھاگ جائے گا۔۔۔ کیونکہ پرندہ اڑنے کے قابل نہیں رہا۔۔۔ پر کاٹ کے ہم نے سڑک پہ چھوڑ دیا۔۔
دیکھتا کیوں نہیں
آج بازار میں جشنِ افلاس ہے
شہر کی بھوک چوری ہوئی
اور خبروں نے اخبار گْم کر دیا!
لوگ روتے رہے!
لوگ ہنستے رہے!
تیرے بستر پہ اشکوں کی چمپا کھلی
اور تو چْپ رہا!
تیرے ماتھے پہ مْسکان کا عطر چھڑکا گیا
اور تو چْپ رہا!
میری ہنڈیا جلی
میرا چولہا بْجھا
میری جھولی سے حرفِ دعا گرگیا
بولتا کیوں نہیں طفل معصوم۔۔۔ تو کب سے بیمار ہے