معاشرے میں نوجوانوں کا کردار : قیوم راجہ کا لیکچر

لیکچر : قیوم راجہ

میں گھوڈا کھجورلہ کے تعلیم یافتہ اور باشعور نوجوانوں کا مشکور ہوں جنہوں نے معاشرے کی سب سے بڑی قوت نوجوانوں سے خطاب کی دعوت دی۔ جموں کشمیر کی وحدت میں نوجوانوں کے کردار پر اپنا موقف پیش کرنے کے لیے سب سے پہلے کسی بھی معاشرے میں نوجوانوں کی حیثیت اور انکی تعلیم و تربیت کے لیے حکومت کی زمہ داریوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔

نوجوان کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسانی معاشرے میں عمر کی وجہ سے یہ معاشرے کی سب سے بڑی قوت ہوتے ہیں۔ جب حکومت نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور نصابی اور غیر نصابی مطلوبہ ضرورتوں کو پورا کرے اور معاشرے میں معزور اور محکوم نوجوان طبقے کو بھی اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کے لیے ریاستی فنڈز مہیا کرے تو نوجوانوں کی قوت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ نوجوان طبقہ ہی ہوتا ہے جو ریاستی اداروں کا نظام چلاتا ہے۔ قوم و ملک کا تحفظ کرتا ہے۔ اسی لیے ہر معاشرے میں نوجوانوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ تعمیر و ترقی اور قومی دفاع کی اہمیت سے واقف قوموں کی حکومتیں اپنے بجٹ کا بڑا حصہ تعلیم اور صحت پر صرف کرتی ہیں جیسا کہ ترکی میں ہو رہا ہے۔ ایران بیتا لیس سال قبل رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کی وجہ سے امریکہ کے دبائو پر اقوام متحدہ کی اقتصادی پابندیوں کا شکار ہے مگر پھر بھی قومی بجٹ کا 8 فی صد تعلیم کے لیے مختص ہے جبکہ پاکستان جو براہ راست آزاد کشمیر پر متاثر ہوتا ہے اسکا تعلیمی بجٹ صرف 2.3 فی صد ہے جو خطے کا کم ترین تعلیمی بجٹ ہے۔ ترکی اور ایران کا نصاب اور تدریسی زبان بھی قومی ہے جبکہ پاکستان کا نصاب امپورٹ کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے قومی شعور کا فقدان ہے۔ آزاد کشمیر کی حالت اس سے بھی بد تر ہے۔ ہندوستان کی طرح پاکستان نے بھی آزاد کشمیر میں جموں کشمیر کی تاریخ و ثقافت کو نصاب سے نکالا ہوا ہے۔ چند سال قبل میں نے عدالتی رٹ کے ذریعے قانون ساز اسمبلی سے آزاد کشمیر ٹیکسٹ بک بورڈ کا بل منظور کروایا تھا۔ اب یہ باقاعدہ ایک ادارہ بن چکا ہے جس سے کچھ لوگ بھاری تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں مگر آزاد کشمیر کا نصاب تیار کرنے میں وہ پھر بھی آزاد نہیں۔ اب جب آپکو مادر وطن جموں کشمیر کی تاریخ ہی پڑھنے کا حق نہیں تو پھر قومی تاریخ سے ناواقف نوجوانوں کی حیثیت سے آپ کس طرح اپنی ریاست کی وحدت میں تاریخی کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں؟ نصاب کے علاؤہ جو چیز کسی قوم کے نوجوانوں کی فکری لام بندی کرتی ہے وہ اس ملک کی دینی و سیاسی پارٹیوں کی قیادت ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اسلام فرقہ پرستی اور ریاست غیر ریاستی سیاست کا شکار ہے۔ ہم ریاستی باشندے ووٹ دے سکتے ہیں لیکن لے نہیں سکتے۔ ووٹ لینے کے لیے ہمیں خود کو حلفا ہندوستانی یا پاکستانی قرار دینا پڑتا ہے جو بدترین ظلم ہے۔ جموں کشمیر تین حصوں میں تقسیم ہے۔ اب کچھ کشمیری خود کو ہندوستانی کچھ پاکستانی اور کچھ چینی قرار دیں تو ریاستی وحدت کیسے بحال ہو گی؟ اب یہ فیصلہ کرنا اپ با شعور نوجوانوں کا فرض ہے کہ کیا وہ کشمیری لیڈرز آپکے ووٹ کے حقدار ہیں جو صرف خود اقتدار کے مزے لینے کے لیے آپکو اپنے پیدائشی حق سے محروم کرتے ہیں؟ کیا یہ سیاست دان آپکا تعلیمی و معاشی استحصال کر کے آپکو نفسیاتی طور پر معزور نہیں کر رہے ؟ یہ سیاستدان نوجوانوں کو صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے جلسے جلوسوں کے لیے نوجوانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اب سوال ہے کہ ان حالات میں نوجوانوں کو کیا کرنا چاہیے؟

میرے نزدیک سب سے پہلے نوجوانوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ ایسے خود غرض ، موقع پرست اور کرپٹ سیاستدانوں کی پیروی کر رہے ہیں جنہیں نوجوانوں کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں۔ دوسرا وہ ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں اجتماعی سوچ فکر کا اتنا فقدان ہے کہ اکثر لوگ اپنے پیٹ سے ھٹ کر کسی چیز کا نہیں سوچتے۔ اور خاصکر طلبا و طالبات کو پارٹیوں کی سیاست سے خود کو آزاد کر کے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر یوتھ فورس یا ادبی سوسائٹی بنانی چاہیے جو معاشرے کی اصلاح کرے اور بے صلاحیت اور خود غرض قیادت کی پیروی کے بجائے اپنے اندر سے ایک ویزنری قیادت پیدا کرے ۔ آپ پہلے ہی ایک قوت ہیں اور جب آپ اپنی قوت کو یکجا کریں گے تو پھر آپ اقتدار پرستوں کے پیچھے نہیں بلکہ وہ آپکے پیچھے بھاگیں گے۔ آپکو ملازمت کے لیے سیاستدانوں کی منتیں کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ تعلیم یافتہ نوجوان ریاستی نظام کی ضرورت ہوتے ہیں۔ نوجوانوں کے بغیر ملک کا دفاع کوئی کر سکتا ہے نہ انتظامی معاملات چلائے جاسکتے ییں۔ دوسرا کام تاریخی اور علمی مشاہدے کا ہے۔ فکر کرنے سے فکر پیدا ہوتی ہے۔ آپ اپنی تاریخ اور ثقافت سے رشتہ جوڑیں تاکہ دنیا کی تاریخ میں آپ اپنا مقام اور تشخص قائم کر سکیں۔ جب آپکو اپنی تاریخ و ثقافت کا علم ہو گیا تو آپکو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ قوموں کی صف میں آپ کہاں کھڑے ہیں اور ریاستی وحدت کی بحالی کے لیے آپکو کیا کرنا ہے؟ اس کے لیے آپ کا تعلق ان تنظیموں، طبقوں اور شخصیات کے ساتھ ہونا چاہیے جو آپکا استحصال نہیں بلکہ استقبال اور کردار سازی کریں تاکہ آپ اپنی صلاحیتوں سے استفادہ کر سکیں۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*