دبنگ انکار! Absolutely NOT

تحریر : میجر (ر) محمود

امریکی حکومت نے حکومت پاکستان سے پاکستان کی سر زمین پر اپنی فورسز کے لئے اڈوں کی درخواست کی ہے,معروف امریکی ا جریدے نیو یارک ٹائمز کے کے مطابق اس سلسلے میں امریکی سی آئی کے کے سینئر اہلکار پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ سے بھی ملے لیکن ہر طرف” NO” کی جھنڈی ملی , یہ پاکستان کے وقار اور خود مختاری کا لینڈ مارک ایونٹ ہے .
پاکستان میں امریکی فورسز کے اڈوں کے قیام کی تاریخ پچاس کی دہائی سے شروع ہوئی اور اس وقت زیادہ نمایاں طور پر سامنے آئی جب پشاور "بڈ بیر ” کے اڈے سے امریکی U2 طیارہ سوویت یونین کی جاسوسی کے لئے اڑا جسے سوویت فورسز نے مار گرایا اور سوویت یونین نے اسی روز اپنے نقشے پر پاکستان کے گرد بھی "سرخ دائرہ ” لگا دیا . ان دو بڑے حریف ممالک کی سرد جنگ کا ہمیں بھی خمیازہ بھگتنا پڑا . 80 کی دہائی کے آخری حصے میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور اس کی افغانستان میں شکست اور انخلاء کے بعد امید تھی کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ہم بھی امن سے رہ سکیں گے لیکن نائن الیون کے بعد سناریو پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہو گیا , امریکہ نے تعاون کے لئے پاکستان سے درخواست نہیں بلکہ سیدھا سوال پوچھا کہ:
” ہمارے ساتھ ہو یا نہیں ” اور منفی جواب کی صورت میں آس کے بھیانک نتائج کا بھی اشارہ دیا .عالمی حالات کے پیش نظر اس وقت پاکستان کے پاس "مثبت جواب ” کے علاوہ کوئی آپشن نہ تھا کیونکہ پاکستان ایٹمی قوت کے حوالے سے "شیشے کے گھر” میں تھا جہاں پتھر پڑنے سے کرچی کرچی ہو جاتا جبکہ عالمی حمایت یافتہ امریکہ نے تو کروز میزائیل مارنے تھے , B25 بمبار جہازوں نے ہمارے ملٹری اور انڈسٹریل سیٹ اپ کو تباہ کر دینا تھا ,امریکہ کیخلاف کس” ایس ایچ او” نے ایف آئی آر درج کرنا تھی ,اس نے تو دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم پھینک دیا تھا جبکہ باقی دنیا صرف تماشائی بنی ہوئی تھی اس سیچو ایشن میں پاکستان نے امریکی حکم بجا لایا اور دست تعاون پیش کیا جو انتہائی نا پسندیدہ لیکن معقول فیصلہ تھا, اسکے کچھ منفی نتائج بھی بھگتے لیکن اب پھر ہاتھی کا پاؤں ہمارے پیروں پر ڈلتے نظر آ رہا ہے ..
اب افغانستان سے امریکہ زخم چاٹتے ہوئے اپنی فورسز کا انخلاء کر رہا ہے لیکن اسے تشویش ہے کہ یہاں سے نکلنے کے بعد افغانستان میں القاعدہ اور داعش پھر سے فعال ہو کر امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اس لئے پاکستان میں اس کے اڈوں کا وجود ضروری ہے, اس کے علاوہ امریکہ یہاں سے چین اور ایران کو بھی مانیٹر کر سکے گا جنہیں وہ اپنا دشمن تصور کرتا پے.
لیکن خطرات تو پاکستان کے لئے بھی ہیں, ہمارا ایٹمی پروگرام بھی تو اس کے "مانیٹرنگ پلان ” میں شامل ہو گا, چین سے ہماری بڑھتی ہوئی تجارت اور تزویراتی مواصلاتی رابطہ ” سی پیک ” بھی متاثر ہو سکتی ہے, امریکہ کے ہندوستان سے بڑے دفاعی معاہدات موجود ہیں , ہندوستان کی طرف امریکی جھکاؤ ایک حقیقت ہے, ان حالات میں پاکستان یہ رسک کیسے لے سکتا ہے کہ امریکی فورسز اس کی سرزمین پر موجود ہوں, پاکستانی قوم کو بھی یہ ناگوار گزرے گا کہ ان کی خود مختاری پر سودا ہو گیا ہے, لیکن امریکہ کو "NO "کہنے کے لے بھی بڑے دل گردے کی ضرورت ہے جسے ہماری سول حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ نے ثابت کر دیکھایا ہے کہ ہم میں پہلے سے زیادہ "ایسڈ لیول” موجود ہے اور ہم اپنی خود مختاری اور وقار پر آنچ نہیں آنے دیں گے , الحمد للہ , امید ہو چلی ہے کہ پاکستان اب اس درجے پہ پہنچ گیا ہے کہ وہ اب کسی سے ڈکٹیشن نہ لے گا بلکہ جنوبی ایشیاء کے معاملات پر پاکستان سٹیک ہولڈر کے سٹیٹس پر ہو گا .ہماری قیادت کے اس انکار کو حضرت علامہ اقبال کے پاکستان کے خواب کے تناظر میں دیکھئیے . انکاراقرار داد پاکستان کی روح کے عین مطابق ہے, یی انکار پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے جزبات کی عکاسی کرتا ہے . قوم کو اپنی سول و فوجی قیادت کی اس جرات پر مبارک ہو.

تعارف: raztv

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*