جمہوریت کے دلدار : قیوم راجہ

تحریر : قیوم راجہ

آزاد کشمیر میں یہ الیکشن کا ماحول ہے۔ اسوقت تو سیاسی محفلیں ہونی ہی ہیں لیکن عام حالات میں بھی ایک عام مزدور سے لے کر سرکاری اداروں تک کسی بھی جگہ انسان چلا جائے تو لوگ سیاسی بحث مباحثہ کرتے دیکھے جاتے ہیں۔ اس سیاسی دلچسپی کی وجہ سے تو ہمیں ماہرین سیاست کے حوالے سے خود کفیل ہونا چاہئے لیکن یہاں سیاسی پارٹیوں نے لوگوں کو کس حد تک سیاسی اور جمہوری اصول وقواعد سکھائے ہیں اسکا اندازہ آپ چند دن قبل ایک سیاسی بحث کے تذکرے سے لگا سکتے ہیں۔

میرے پڑوس میں فوت ہونے والے ایک عزیز کے چالیسویں پر کافی لوگ جمع تھے۔ وہاں کچھ سیاسی بابے بھی تھے۔ وہ سیاست دان ہی کیا جو عوام کی نبض نہ سمجھ سکے۔ کوئی ایم ایل اے اور وزیر عوامی کام کرے یا نہ کرے لیکن تعزیت اور شادی پر چلا جائے تو لوگ خوش ہو جاتے ہیں اس لیے سیاستدان بھی فوتگیوں پر نظر رکھتے اور شادیوں پر نظر رکھتے ہیں مزکورہ تقریب میں ایک آدمی نے کہا کہ مسلم لیگ ن تحصیل کھوئی رٹہ کے صدر اور نائب صدر نے الیکشن کے لیے ٹکٹ نہ ملنے پر احتجاجی طور پر استعفے دے دیے ہیں۔ میں نے پوچھا کس کو استعفے دیے گے ہیں تو ایک صاحب نے کہا وزیر اعظم فاروق حیدر کو دیے ہونگے ۔ دوسرے آدمی نے اختلاف کرتے ہوئے کہا نہیں حلقہ کے وزیر راجہ نثار صاحب کو دیے ہونگے ۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ان جمہوری بابوں کو تو علم ہی نہیں کہ کس کا استعفی کس کو بنتا ہے۔ وہاں پر ایک ریٹائرڈ فوجی حوالدار بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا ایک حوالدار فوج میں کس کو رپورٹ کرتا ہے تو انہوں نے کہا صوبیدار کو۔ میں نے کہا اگر حوالدار براہ راست جرنیل کے پاس چلا جائے تو پھر کیا بنے گا؟ کہنے لگے جرنیل پوچھے گا تم براہ راست کیوں ا گے۔ میں نے کہا یہی وجہ ہے کہ ایک تحصیل کے عہدیدار براہ راست وزیر اعظم کو استعفے نہیں دے سکتے۔ اس مثال کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس نام نہاد جمہوری نظام میں کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کے باقاعدہ اجلاس نہیں ہوتے اور نہ ہی اجلاسوں کی کاروائی کی کوئی رپورٹ مرتب ہوتی یے۔ وزیر جب حلقہ میں آتا ہے تو لوگ بھیڑ بکریوں کی طرح درخواستیں لے کر اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ولیموں پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس رواج کو پروان چڑھانے میں سیاستدانوں کا زیادہ کردار ہے۔ وہ اپنے حلقے کے اندر اگر ایک سرجری کا شیڈول طے کر لیں جہاں وہ باعزت طریقے سے لوگوں کے معاملات سنیں تو اس طرح کی ہلڑ بازی پیدا نہ ہو۔

اس دفعہ ہر انتخابی پارٹی کا ہر وہ امیدوار جسے ٹکٹ نہیں ملا وہ شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ ٹکٹ کا فیصلہ اوپر سے مسلط کیا گیا ہے اور کارکنان کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کب کسی نے کارکنان سے مشاورت کی تھی؟ ٹکٹ ہمیشہ دولت تعلق اور موروثیت کی بنیاد پر جاری ہوتے رہے ہیں نہ کہ سیاسی و نظریاتی وابستگی اور خدمات کے صلے میں ورنہ آزاد کشمیر کی ہر حکومتی پارٹی کے وزیر اسلام آباد کے اشاروں پر الیکشن کے وقت ہوا کا رخ دیکھ کر پارٹیاں تبدیل نہ کرتے۔ پاکستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت دیکھ کر گلگت بلتستان میں پی پی کے اکثر وزیر ن لیگ میں چلے گے اور ن لیگ کے وزیر اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی حکومت دیکھ کر اس میں چلے گے۔ آزاد کشمیر میں بھی یہی کچھ ہو رہا یے۔ پارٹیاں بدلنے سے سیاستدانوں کو تو وزارتیں مل جاتی ہیں لیکن عوام کی حالت میں کوئی بہتری نہیں پیدا ہوتی۔ سیاستدانوں کی ارد گرد رقص ہی ان کا مقدر ہے۔ حقیقی سیاسی نمائندوں کا کام عوام کو ایک دوسرے کے قریب کر کے معاشرے کو مضبوط کرنا اور قومی ایشوز پر عوام کو متحد کرنا ہوتا ہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کی سب سے بڑی انویسٹمنٹ برادری نفرت ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جو امیدوار مقامی کارکنان سے مشاورت کرنے کے بجائے اوپر سے ٹکٹ کا فیصلہ مسلط کرنے پر احتجاج کرتے ہیں ان میں سے اکثر نے خود ٹکٹ کے لیے درخواست دینے سے پہلے مقامی سطح پر کارکنان سے مشاورت نہیں کی۔ حقیقی جمہوریت میں حلقے کے ٹکٹ کے لیے حلقے میں جماعت کی شاخ مرکزی بورڈ کو سفارش کرتی ہے۔ ان اصول وقواعد کی لا علمی کی اصل وجہ جمہوری طرز عمل کا فقدان ہے۔ سارا نظام شخصی فیصلوں پر چلتا ہے جب تک ادارے مضبوط نہیں ہونگے کسی کو اپنے فرائض و حقوق کا علم نہ ہو گا۔ میں نے چودہ سال قبل اپنی اہلیہ کی تقرری کا آرڈر محکمہ تعلیم کے ڈویژن ڈائریکٹر میرپور سے لایا تو مجھے حکومتی پارٹی کے کچھ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ آپ پردیس میں رہے ہیں آپکو یہاں کے اصول و قواعد کا نہیں علم ۔ یہ آرڈر جعلی ہے کیونکہ اس میں وزیر حکومت کی رائے شامل نہیں۔ میں نے کہا نوکریاں دینا وزیر کا نہیں اداروں کا کام ہوتا ہے لیکن گزشتہ چالیس سالوں کے دوران پیدا ہونے والوں نے ہر اختیار وزیر کے پاس ہی دیکھا ہے۔ یوں تو بے شمار لوگوں نے ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں لیکن اپنے حقوق کی ڈگری شاید ہی کسی کے پاس ہو۔ لوگوں کو اپنے حقوق و فرائض اور جمہوری اصول وقواعد سکھانے کے لیے بلدیاتی اداروں کی بحالی اور قومی اداروں کی فعالیت ناگزیر ہے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*