کھوئی رٹہ کی مضبوط سوہلن راجپوت برادری کا نمائندہ اجلاس جس میں قیوم راجہ کے علاؤہ ڈپٹی کمشنر (ر)راجہ عبدالرائوف خان، پروفیسر جاوید قمر ، پروفیسرز راجہ صیاد خان اور راجہ تصور خان، وکلاء راجہ ایوب خان اور راجہ نوید قمر ، صحافی مجیب اکبر راجہ اور سیاسی کارکنان راجہ ارشاد خان، راجہ شفیق خان راجہ عاصم خان اور دیگر۔

آزادی پسندوں کی الیکشن پالیسی کیا ہے، کیا ہونی چاہئے؟

تحریر: قیوم راجہ

ریاست جموں کشمیر کے غیر مشروط حق خودارادیت پر یقین رکھنے والی جماعتوں نے بھارت اور پاکستان کے زیر قبضہ ریاست جموں کشمیر میں الیکشن بائیکاٹ کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند تو حالت جنگ میں ہیں جبکہ آزاد کشمیر میں الحاق کی شق کے خلاف احتجاجی طور پر الیکشن بائیکاٹ کا اعلان کیا جاتاہے۔ کچھ آزادی پسندوں کا مشورہ ہے کہ الحاق پاکستان کی شق پر دستخط موقف بدلے بغیر الیکشن میں حصہ لے لینا چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں قرآن ہر ہاتھ رکھ کر اور اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اٹھائے جانے والے حلف کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارے عہد کا معیار مگر یہاں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔ جموں کشمیر ایک غلام خطہ ہے اور پاکستان ایک غریب ملک ہے جہاں لوگ مجبوری کے عالم میں آئے روز عدالتوں میں ایسی بیان حلفیوں پر دستخط کر دیتے ہیں جنکے بارے وکلاء اور ججوں کو بھی علم ہوتا ہے کہ یہ جھوٹی ہیں اور روٹین ورک کے طور پر انہیں اس معاشرے میں خانہ پری کے طور ہر قبول کر لیا جاتا مگر یورپی ممالک میں رہنے والے بے شمار مسلمان ایسے ہیں جو لوکل گورنمنٹ کو بیان دے دیتے ہیں کہ انہوں نے بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے لہزا بیوی کو سرکاری مکان دیا جائے۔ رہتے پھر بھی میاں بیوی کی طرح ہیں کیونکہ علحیدگی دل سے نہیں صرف زبان سے کی ہوتی ہے ۔ یہ ہے ہمارے ایمان کا درجہ جہاں ہمارے کچھ لوگ مجبوری نہیں بلکہ لالچ و حرص کی بنیاد پر بیویوں کو تحریری اور زبانی طلاق کے بعد بھی کہتے ہیں کب ہم نے دل سے تھوڑا دی ہے۔

فرض کریں کہ ان لوگوں کی بات مان لی جائے جو کہتے ہیں کہ الحاق کی شق پر دستخط کر کے اپنا آزادی کا موقف جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا الیکشن کوئی ایسی آسان چیز ہے جس کے لیے بنا تیاری کے میدان میں اترا جاسکتا ہے۔ الیکشن کا شیڈول طے ہونے تک خاموشی اختیار رکھی جائے اور جب لوگ دوسرے امیدواروں کے ساتھ اپنی اپنی کمٹمنٹ کر لیں تو فوری طور پر کچھ لوگ مشورے دینا شروع کر دیں کہ جی آزادی پسندوں کو بھی الیکشن لرنا چاہیے تو یہ کوئی ہمدردی یا پختہ سوچ کا اظہار نہیں بلکہ بغیر تیاری کے مخلص لوگوں کو میدان میں اتار کر خراب کرنے والی بات ہے۔ دوسری طرف اگر تیاری کر کے بھی آزادی پسند الیکشن کے لیے میدان میں اتریں تو بھی بعض آزادی پسند امیدواروں کی صلاحیتوں کا اعتراف کیے بغیر کچھ ایسے سوالات ہیں جنکے جوابات تلاش کرنا ضروری ہے۔ پہلا سوال ہے آزادی پسند تنظیموں کاایک دوسرے کے ساتھ رویہ۔ازادی پسندوں میں کچھ کردار ایسے ہیں جنکو پارٹی سیاست سے بالا تر ہو کر عوام اسمبلی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بات میں اپنے تجربے کی روشنی میں کہتا ہوں۔ بے شمار ایسے لوگ میرے پاس آئے جنہوں نے کہا کہ اگر آپ الیکشن لڑیں تو ہم ووٹ دیں گے لیکن جب آزادی پسند جماعتیں الیکشن کا بائیکاٹ کر دیں تو آزادی پسندوں کی الیکشن مہم کون چلائے؟ الیکشن کے لیے فنڈز کہاں سے ائیں؟۔ ووٹ بے شک لوگ خلوص سے دیں لیکن جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں تو لاکھوں روپے صرف لوگوں کے قیام و طعام اور ٹرانسپورٹ کے لیے درکار ہیں۔ یہاں صرف خلوص دیا نتداری اور سیاسی ورک سے میرٹ نہیں بنتا بلکہ یہاں دولت بھی چائیے جبکہ ہم نے جیلوں کے اندر قانونی چارہ جوئی کے لیے کئی آزادی پسند قیدی وکیل کی فیس کے لیے تڑپتے دیکھے ہیں مگر آزادی کے نام پر عرب پتی بن جانے والوں نے کبھی کسی قیدی کی خبر گیری تک نہ کی۔ ایسے رویے رکھنے والے لوگوں کے مشوروں پر محض کردار کی بنا پر الیکشن میں کودنے کا رسک کون لے سکتاہے۔ اس معاشرے میں قبیلوں کا رول ایک حقیقت ہے ۔ میرا قبیلہ بھی چاہتا ہے کہ میں الیکشن لڑوں اور ہمارا نظریاتی ووٹ بنک بھی ہے لیکن پھر بھی بے شمار سوالات حل طلب ہیں ۔ سب کچھ ہونے کے باوجود ریاست جموں کشمیر پر قابض قوتیں آزادی پسندوں کو الیکشن میں کامیاب نہیں ہونے دیتیں لیکن آزادی پسندوں کو جو کرنا چائیے وہ یہ ہے کہ وہ صرف احتجاجی بائیکاٹ نہ کریں بلکہ الحاق کی شق کے خلاف عملی جد و جہد کریں ۔ دوسرا ریاستی وحدت پر جو ریاستی یا غیر ریاستی پارٹی قابض قوتوں کے ساتھ سمجھوتہ کرتی ہے اس کے خلاف بھی جد و جہد لازمی یے۔ جو ایسا نہیں کرتے وہ خود بھی اصل میں حقیقی آزادی یاوحدت پسند نہیں ہیں اور جو خود کو حقیقی آزاد پسند سمجھتے ہیں انہیں اپنے رویوں اور پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ انہیں الیکشن کے تقاضے، لوازمات اور ضروریات پوری کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ اخلاقی طور پر ہر لحاظ سے ہمارا پلہ بھاری ہے لیکن ہمیں الیکشن کلچر اور ووٹنگ طرز عمل سمجھتے کی ضرورت ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کن وجوہات کی بنا پر ووٹر کا رویہ اور فیصلہ تبدیل ہوتا ہے۔ الیکشن کے عمل میں جانے کے لیے تو باقاعدہ تیاری کی ضرورت ہے جس کے لیے اب دیر ہو چکی ہے لیکن کم از کم میدان میں ا کر جو انتخابی امیدوار آپ سے ووٹ مانگتا ہے اس سے یہ تو پوچھیں کہ آپکو اگر ووٹ دینے کا حق ہے تو لینا کا کیوں نہیں؟ چند ہفتے قبل کھوئی رٹہ میں راجپوت برادری کاایک نمائندہ اجلاس ہوا جہاں میں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کسی بھی انتخابی پارٹی کا امیدوار گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے سٹیٹس کی تبدیلی کے خلاف بات نہیں کر رہا۔ میں نے ڈٹ کر کہا کہ برادری کے بزرگوں کااحترام اپنی جگہ مگر برادری کے نام پر اجلاس بلا کر کسی مخصوص سیاسی پارٹی کے لیے لابی نہ کی جائے۔ میں نے کہا کہ اگر میں بحثیت راجپوت برادری کااجلاس بلا کر بات صرف لبریشن فرنٹ کی کروں تو کیسا لگے گا؟ راجپوت برادری کے کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ اجلاس بلائیں ہم آئیں گے لیکن کیا لبریشن فرنٹ نے ماحول کے لیے خود کو تیار کر رکھا ہے۔ آزادی پسندوں کی تو ساری جد و جہد برسیوں اور تعزیتی ریفرنس تک محدود ہو گئی ہے ۔ تبدیلی کے لیے ہمیں اشوز پر سیاست کرنی ہو گی۔ جوں تو عوام گونا گوں مسائل کا شکار ہے لیکن وہ ایشوز جن پر روائتی اقتدار پرست کام نہیں کرتے اور صرف آزادی پسندوں کو جد و جہد کرنے کی ضروریات ہے وہ درج زیل ییں۔

1. پانچ اگست 2019 کو جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا غیر قانونی و غیر آئینی بھارتی فیصلہ۔
2. گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی خصوصی حیثیت کاتحفظ۔
3. منگلہ ڈیم اور دیگر جاری ڈیمز کا حق ملکیت۔
4. پاکستان کو چالیس فی صد غیر ملکی زد مبادلہ دینے والے آزاد کشمیر کے لیے ہوائی اڈہ۔
5. آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہارٹ سینٹرز کا قیام۔ یاد رہے گلگت بلتستان سے اسلام آباد چیک اپ کے لیے مریضوں کو کم از کم 24 گھنٹوں کا طویل اور سخت ترین سفر طےکرنا پڑتا ہے ۔
6. گلگت بلتستان میں ظالمانہ شیڈول فور کا خاتمہ۔
7۔ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی بحالی اور آزاد کشمیر میں جعلی سٹیٹ سبجیکٹ کے اجراء کی روک تھام۔
8. الحاق کی غیر جمہوری شق کا خاتمہ ۔
9. آر پار سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے سیاسی و قانونی مہم۔
10. لبریشن سیل کے قیام کے اصل مقاصد اجاگر اور پورا کرنے کی کوششیں۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*