تحریر: مبرا یونس ایڈووکیٹ
معذرت کے ساتھ آج میں جس موضوع کو اٹھانے جا رہی ہوں وہ ہے جانور نیو جنریشن اور شوقین حضرات اتنا ظلم کرتے ہیں ضرورت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈالتے ہیں میری سب سے درخواست ہے کہ اِن بے زبان جانوروں پر اتنا بوجھ نہ لادیں کہ یہ اُنکی جان پر ظلم ہو.. اِنہی کی مدد سے ہونے والی کمائی سے آپ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں..
کم از کم اِن کو اتنی اہمیت تو دیں کہ اِن پر انکی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیں.اور جب آپ کا کوئی پالا جانے والا جانور بیمار ہو جائے تو خدا کے لئے ان کے اوپر اپنے گھریلو ٹوٹکے نہ آزمائیں بلکہ ان کو کسی اچھے جانوروں والے ڈاکٹر کو چیک کروائے اور ان کا مکمل ٹریٹمنٹ کروائیں جیسے اپنی اور اپنے بچوں کا ٹریٹمنٹ کرواتے ہو ۔ اسی طرح ان جانوروں کا بھی ٹریٹمنٹ کرواؤ ۔جب علاج کا پتہ نہیں ہوتا تو ظالموں ان کے اوپر اپنے فضول کے نسخے بھی نہ آزمایا کریں۔اللہ کے رسول نے انسانوں کو جانوروں پر بھی ظلم کرنے سے روکا ہے مگر ہم انسان ہیں کہ بے زبان جانوروں پر کھلے عام ظلم و ستم کرتے ہیں تماشا کرتے ہیں اور انسانیت سے عاری لوگ تالیاں بجاتے ہیں..
شوقین حضرات کبھی مرغ کی لڑائی کراتے ہیں ،کبھی بٹیر تیتر کی ،کبھی کتے کی اور کبھی میلوں میں اونٹوں پر زیادہ وزن اٹھواتے ہیں اور کبھی گھوڑوں کی یہ بھی ایک ظلم ہے آجکل سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے علاقے میں سرعام اپنی اونٹوں کی قیمت بڑھانے کے لئے ہر روز میلہ منعقد کیا جاتا ہے ،یہ میلہ نہیں یہ ایک سرعام ظلم ہے ، اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اور اس ظلم کو روکنا چاہیے ورنہ بے زبان جانور تو ایک دوسرے کو کاٹ کاٹ کر کھائیں گے لہولہان کریں گے وہیں اللہ کے سامنے ہم سب جوابدہ ہوں گے..میری لوگوں سے درخواست ہے کہ یہ سرعام بے زبان جانوروں پر ظلم کو رکوایا جائے….
اور ہمارے ساتھ مل کر سوشل میڈیا پراور سرعام ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔یوں تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس بات کا دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جانور بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں اور شفقت کے حقدار ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی اس سوچ کو اجاگر کرنے کی خاطر گھروں میں جانور اور پرندے لا کر پالنا شروع کردیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اس شوق کا رجحان موجود ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے گھروں میں نسلی کتے، بلیاں اور کئی اقسام کے رنگ برنگے پرندے پال رکھے ہیں اور ان کی بہت اچھی طرح سے پرورش کرتے ہیں، وقت پر کھانا پانی دیتے ہیں، مگر ان جانوروں کا کیا جو گلی محلوں میں آوارہ گھومتے ہیں اور کسی کو نقصان پہنچانا تو دور کی بات روز انسانی ظلم و ستم سہتے ہیں اور اپنی زندگی کے دن گنتے ہیں۔
گلی محلوں میں ذیادہ تعداد بلیوں اور کتوں کی ہے جو کہ سارا دن صرف کھانا اور رات کو آرام کرنے کی خاطر پناہ گاہیں ڈھونڈتے ہیں، مگر ہمارا ظالم معاشرہ اپنے ارد گرد انہیں برداشت نہیں کرتا، بس جہاں کوئی کتا یا بلی دیکھی پتھر اٹھایا اور دے مارا، یہ بھی نہ سوچا کہ کیا بیتتی ہوگی ان بے زباں جانوروں پر۔ وہ جانور یقین کریں ہمیں انسان نہیں مانتے ہوں گے کیونکہ انسان کو تو قدرت نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے اور ساری سمجھ بوجھ دی ہے، پھر بھی احمقوں والی حرکتیں کرتے ہیں۔ کبھی غور سے کسی بلی یا کتے کی طرف دیکھیں پھر بتائیں کیا ان کو دیکھ کر کوئی چیز مارنا درست ہوگا۔
ان معصوم جانوروں کو جنہوں نے تمھارا کچھ بگاڑنا تو دور کی بات کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا اور تم اس کو اس لیے مارتے ہو کہ وہ کتا ہے یا بلی ہے۔ ان کتوں اور بلیوں کی زندگی ویسے ہی بہت مختصر ہوتی ہے۔ اکثر بھوک سے مرجاتے ہیں تو کئی تیز ٹریفک کی زد میں کچل دیے جاتے ہیں۔ اتنی مشکل زندگی گزارنے والوں پر انسانی مخلوق ظلم کرنے لگ جائے تو کتنی غلط بات ہوگی، وہ بھی قدرت کی تخلیق ہے اور معاشرے میں ان کی اپنی ایک الگ جگہ موجود ہے۔ یقین جانیں ہماری یہ چھوٹی چھوٹی خطائیں خدا کی نظر میں بہت بڑی ہوتی ہیں اور اپنی ان خطاؤں کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم توبہ بھی نہیں کرتے اور بے چین رہتے ہیں۔جانوروں پر ظلم کرنے والے سنبھل جائیں کہ بروز قیامت ان کا حساب ہو گا بے زَبان جانوروں کو بِلاوجہ تکلیف دینے والوں کو ڈرنا چاہئے کہیں مرنے کے بعد عذاب کیلئے یِہی جانور ان پر مُسَلَّط نہ کر دیا جائے۔
امام احمد بن حجر مکی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں* "انسان نے ناحق کسی چوپائے کو مارا یا اسے بھوکا پیاسا رکھا یا اس سے طاقت سے زیادہ کام لیا تو قِیامت کے دن اس سے اسی کی مثل بدلہ لیا جائے گا جو اس نے جانور پر ظلم کیایا اسے بھوکا رکھا”۔میری حکومت سے اپیل ہے کہ اینیمل ایکٹ پاس کیا جائے جس میں جانوروں کیلئے مکمل حفاظتی تدابیر فراہم کی جائے اگر کوئی انسان جانوروں پر ظلم و ستم کرتا ہے یاضرورت سے زیادہ جانوروں سے کام لیتا ہے یا ضرورت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالتا ہے تو اینیمل ایکٹ کے تحت ان کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور ان پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے اس قانون کے تحت جانوروں کی لڑائی پر شرط لگانا یا ان سے لڑائی کا خونی کھیل منعقد کروانے پر پابندی لگائی جائے صورتحال کے پیش نظر اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اینیمل ایکٹ جانوروں کے لیے قوانین پر نظر ثانی کرکے اسے جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے اور مقامی انتظامیہ کو قانون نافذ کروانے پر پابند کیا جائے۔۔۔۔۔