کشمیر سیز فائر لائن کے نزدیک شاہین ویلفئیر ہسپتال کی تعمیر

تحریر : قیوم راجہ

یکم جنوری 1949 کو جموں کشمیر میں ہندوستان اور پاکستان کی افواج کے درمیان اقوام متحدہ نے رائے شماری کی شرط پر سیز فائر کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق ریاست جموں کشمیر کی عوام نے اپنے مستقبل کا تعین کرنا تھا۔ پھر یہ وعدہ عالمی طاقتوں کی سیاسی چپقلشوں کا شکار ہو گیا۔ آہستہ آہستہ ہندوستان اور پاکستان نے بھی اپنے وعدے پورے کرنے کے بجائے اپنی اپنی پوزیشن مضبوط کر کے مسلہ کشمیر کے اصل فریق کشمیری عوام کو ان کے مستقبل کے حوالے سے کسی بھی پلیٹ فارم پر گفت و شنید سے بائر رکھ کر باہمی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس عالمی مسلہ کو پاکستان کی درخواست پر منظور ہونے والی 5 جنوری 1949 کی قرارداد اور 1972 میں بھارت کی شرائط پر ہونے والے شملہ معاہدے کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے علاقائی جھگڑے میں تبدیل کر کے جموں کشمیر کو فارغ کر دیا۔ اس سیز فائر لائن کو کاغزی سیز فائر لائن کہا جاسکتا ہے کیونکہ اسکا کبھی احترام نہیں کیا گیا۔ سیز فائر کا مطلب دونوں قابض افواج کو تا فیصلہ پیش قدمی سے روکنا تھا مگر ان افواج نے کشمیری عوام کی نقل و حرکت پر پابندیاں لگا دیں جس کی وجہ سے 74 سالوں سے بچھڑے کئی خاندانوں کے افراد ایک دوسرے سے دوبارہ ملے بغیر اس دنیا سے چل بسے اور کچھ اب بھی ملاقات کا انتظار کر رہے ہیں۔ جب بھی ہندوستان اور پاکستان کے اپنے اندرونی سیاسی حالات خراب ہوتے ہیں تو ان سے توجہ ہٹانے کے لیے جموں کشمیر کے محاذ پر آر پار گولہ باری شروع ہو جاتی ہے جس سے بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو جانور بھی محفوظ نہیں ہوتے۔ دنیا میں جہاں کہیں اس طرح کے تنازعات ہیں وہاں اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسیاں موجود ہیں لیکن یہ بد نصیب خطہ بے یار و مدد گار ہے۔ ایل اوسی کا بجٹ بھی یے۔ موجودہ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے دو سال قبل خصوصی بجٹ کا اعلان بھی کیا تھا مگر معلوم نہیں کہ سیز فائر لائن کے نزدیک فرسٹ ایڈ تک کی عدم موجودگی میں خصوصی بجٹ کا کیا مطلب و مقصد ہے۔ حالیہ پاک ہند گولہ باری کے شکار شہدا اور زخمیوں کو لوگ اپنی مدد آپ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سوزوکیوں اور موٹر سائیکلوں پر 15 کلو میٹر دور کھوئی رٹہ رورل ہیلتھ سنٹر لاتے رہے جہاں فرسٹ ایڈ سے بڑھ کر کوئی سہولت نہیں۔ وہاں سے اکثر زخمیوں کو کوٹلی ریفر کیا جاتاہے اور وہاں سے راولپنڈی۔ اس طرح سیز فائر لائن سے سات گھنٹوں کی مسافت پر راولپنڈی ریفر کیے جانے والے کئی زخمی وہاں پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ کسی بھی بڑے آپریشن کے لیے آزاد کشمیر میں کوئی ہسپتال نہیں۔ پاکستان کو چالیس فی صد غیر ملکی زر مبادلہ دینے والے آزاد کشمیر کے لیے ابھی تک یہ کہہ کر آئر پورٹ نہیں دیا جاتا کہ سیز فائر لائن کی وجہ سے سیکورٹی کا مسلہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ لاہور اور سیالکوٹ کے ہوائی اڈے بھارتی سرحد سے دور ہیں یا میرپور جہاں کئی سالوں سے ہوائی اڈے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جہاں کے 70 فی صد برطانیہ میں پاکستانی آئی ڈی رکھنے والے کشمیری ہیں اور دوسرے ممالک میں بھی بھاری تعداد محنت مزدوری کرتی ہے۔ ان محرومیوں کے پیش نظر صاحب زادہ فضل الحق نقشبندی نے عوامی تعاون کے تحت اپنی والدہ مرحومہ کے نام پر سیز فائر لائن سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر شاہین ویلفئیر ہسپتال کی بنیاد رکھی ہے جسکی تعمیر کا کام جاری ہے۔ اس کار خیر میں بھی علاقے سے تعلق رکھنے والے برطانوی کشمیری باشندگان نے تعاون میں پہل کی ہے۔ امید ہے کہ اس ہسپتال کی تعمیر سے سیز فائر لائن کے نزدیک بسنے والے لوگوں کو کچھ ریلیف ملے گا لیکن علاقے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے حکومت کو بھی سرکاری ہسپتالوں اور سڑکوں کی حالت بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سر دست زیر تعمیر شائین ہسپتال کے منصوبہ کو مکمل کرنے کے لیے صاحب حیثیت افراد کو تعاون کرنا چاہیے۔

 زیر نظر تصویر زیر تعمیر ہسپتال کی ہے جبکہ نظر آنے والا پانی کا نالہ تھوڑا آگے جا کر آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کو تقسیم کر دیتا ہے۔

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*