کیا ہمارا طرز عمل ہمیں آزادی کی منزل کی طرف لے جا رہا یے؟

تحریر قیوم راجہ

یوں تو ہر محب وطن آزادی کی تحریک کے ماضی حال اور مستقبل پر وقتا فوقتا نظر ڈالتا ہی ہو گا لیکن آج میں سترہ مئی 2005 کو تقریبا 22 سال قید کے بعد ملنے والی رہائی کے حوالے سے اپنے مستقبل کی قیادت کے ساتھ اپنے کچھ تجربات و مشاہدات شئیر کرنا چاہتا ہوں تاکہ شاید وہ تجزیہ کر کے مستقبل کے لیے کوئی بہتر و موثر پالیسی مرتب کر سکیں۔ مستقبل کی قیادت سے میری مراد ہمارے وہ تحریکی نوجوان ہیں جنہوں نے کل سیاسی لیڈرز سفارت کار اور سالار بنناہے۔ وہ اسی صورت میں صحیح معنوں میں اپنا اپنا کردار ادا کر پائیں گے جب وہ ماضی کے کرداروں اور تاریخ کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں گے۔ میں یہاں اپنے تحریکی تجربات کو تین حصوں میں تقسیم کروں گا۔ گرفتاری سے پہلے کا دور، اسیری کا دور اور رہائی کے بعد کا دور۔

میں 1981 میں کم عمر اور کم سیاسی و تحریکی تجربات کے ساتھ لبریشن فرنٹ میں شامل ہوا۔ اسکا سبب دو واقعات بنے۔ اول مقبول بٹ شہید کی 14 سالہ بیٹی لبنی بٹ کا اپنے انٹرویو میں یہ سوال کہ کشمیری میرے ابو کی جان بچانے کے لیے کیا کر رہے ییں؟ دوسرا سال کے اختتام پر جرمنی کی حکومتی پارٹی کے ایک دوست کی طرف سے ایک سیاسی پروگرام ۔یں دعوت جس میں ایک رپورٹ تقسیم کی گئی ۔ اس رپورٹ میں مختصرا لکھا گیا تھا کہ کس طرح جرمنی کو اتحادیوں نے دوسری جنگ عظیم میں تباہ کر دیا تھا مگر جرمنی کی سیاسی قیادت نے کس طرح اپنی فہم و فراست کے ساتھ معاشی طور پر دوبارہ یہی نہیں کہ اپنے پائوں پر کھڑا کر دیا بلکہ جرمنی پر مل کر چڑھائی کرنے والے ملکوں کے لوگ اچھی تنخواہ کے لیے جرمنی کا رخ کرتے ہیں اور سیاسی عدم استحکام کے شکار ملکوں کے لوگ سیاسی پناہ کے لیے بھی جرمنی کو اولیت دیتے ہیں۔ شندربوکل ہوٹل سٹٹگارٹ میں ہونے والی اس کانفرنس نے میرے زہہن میں اپنے اور اپنی قوم کی سوچ و فکر اور طرز عمل پر بے شمار سوالات پیدا کیے ۔ ایک سوال یہ تھا کہ ہم لوگ جرمنوں کے برعکس اپنے ملک میں رہ کر اس کی حالت بہتر کرنے کے بجائے دوسرے ملکوں کا رخ کیوں کرتے ہیں؟ اسکا ایک جواب تو میرے زہہن میں یہی آتا تھا کہ ہم نہ تو ایک قوم ہیں اور نہ ہی ہماری قومی سوچ ہے۔ ہمارے ہاں سیاست قومی خدمت نہیں بلکہ لوٹ مار کا نام ہے اور یہ سلسلہ اب زیادہ تیز ہو گیا یے ۔ سیاستدان اور حکمران تو دور ایک عام افسر کا بچہ بھی بیرون ملک تعلیم حاصل کرتا ہے اور جو کوئی کسی مجبوری سے یہاں تعلیم حاصل کر لے اسکی پہلی اور آخری خواہش کسی نہ کسی طرح یورپ پہنچنا ہوتا ہے۔ برحال اس کالم کا اصل مقصد آزادی کی منزل اور مطلوبہ رویے اور طرز عمل ہے اس لیے میں تحریکی پالیسی و رویوں تک ہی اسے محدود رکھوں گا۔ ہماری تحریکی زندگی کے آغاز میں آزادی پسندوں کے اس وقت چند ایک اہم بنیادی اصول تھے۔ ایک زہنی تربیت جس کی وجہ سے رکنیت کا ایک معیار تھا جو اس پر پورا اترتا تھا اسے رکنیت دی جاتی تھی۔ دوسرا خود انحصاری۔ یعنی تحریکی کارکنوں نے اپنی جد و جہد کے وسائل خود پیدا کرنے تھے۔ تیسرا قربانی کا جزبہ جس کے لیے اپنی ذاتی خواہشات کو محدود و کنٹرول کرنا تھا۔ چوتھا ساتھیوں کے ساتھ وفاداری اور اچھے باصلاحیت ساتھیوں کو خطرہ نہیں بلکہ اپنی قوت تصور کیا جاتا تھا۔

مقبول بٹ شہید کی رہائی کے لیے پہلے تو ہم جرمنی میں حسب توفیق اور حسب اپروچ وہاں کی انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی نمائندوں اور بشپ سے بھارتی حکومت کو اپیل کروائی ۔ امان اللہ خان ہمارے پاس جرمنی گے تو سٹٹگارٹ میں لبریشن فرنٹ کی باقاعدہ شاخ قائم کی گئی جسکا مجھے صدر منتخب کیا گیا۔ برلن میں پہلے ہی لبریشن فرنٹ کی شاخ تھی جس کے صدر سردار مشتاق خان آف ہجیرہ تھے۔ ہمیں اس وقت بہت حیرت ہوئی جب امان اللہ خان صاحب نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے ایسے لوگوں کو ورکنگ باڈی کا حصہ بنا دیا جن کے دن رات شراب خانوں میں گزرتے تھے۔ میں نے امان اللہ خان کے ساتھ جب تشویش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا چلو دیکھتے ہیں مگر دیکھنے میں کوئی زیادہ دیر نہ لگی۔ باڈی کے قیام کے فوری بعد ایک ہوٹل میں تقریب منعقد کی گئی جس کے ساتھ ایک شراب خانہ بھی تھا۔ امان صاحب کے سیلیکٹ کردہ ایک عہدیدار نے شراب خانے سے بیر کا ایک گلاس خریدا اور امان صاحب کے سامنے میز پر بیٹھ گیا تو امان صاحب میری طرف دیکھ کر زیر لب مسکرا دیے۔ اتنے میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرنے والے ہمارے نائب صدر آفسیر احمد شائین نے شراب کا گلاس اٹھا کر بار مین کو واپس کر دیا۔ اس مثال سے میں ان کے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ مرکزی قیادت کو مقامی قیادت کی مشاورت سے مقامی فیصلے کرنے چاہئیں کیونکہ مقامی قیادت کو مقامی لوگوں اور انکے کردار کا بہتر علم ہوتا ہے۔ اوپر سے مسلط کیے جا ے والے فیصلے غلط اور خطرناک ہو سکتے ہیں۔ امان اللہ خان اپنے چند روزہ دورے کے بعد واپس برطانیہ چلے گے اور میں چند ہفتوں بعد پیرس گیا جہاں سنجیدہ لوگوں ہر مشتمل لبریشن فرنٹ کی شاخ قائم کی جو تاحال اپنی جد و جہد جاری رکھے ہوئے یے۔ پیرس سے میں برطانیہ گیا جہاں مہاترے کیس میں گرفتار ہو گیا۔ میں نے جیل سے اپنی جماعت سے تحریری مطالبہ کیا کہ وہ انکوائری کرے کہ اگر مہاترے کے اغوا کا مقصد مقبول بٹ کو پھانسی کے پھندے سے بچانے کی کوشش تھی تو اسے پلان کے برعکس قبل ازوقت کیوں مار یامروا دیا گیا مگر اس انکوائری کو تحریک و تنظیم کے مفادات کے منافی قرار دے کر دبا دیا گیا۔ مجھے اور ریاض کو چونکہ خفیہ سزاہوئی تھی جسکے جانکاری کے لیے ہم اپنی قانونی و سیاسی جنگ میں الجھ گے۔ اس جنگ میں ہماری رہائی کے لیے قائم مہم فراق نے اہم کردار ادا کیا ۔مہم کے قیام کی شروعات یونس تریابی ، عظمت خان ، حاجی آفتاب احمد انصاری اور محمد غالب نے کی مگر اس کا نام جے کے ٹی وی کے شمس رحمن جو اجکل فری تنویر کمپئین کے بانیان میں شمار ہیں نے رکھا تھا۔ آہستہ آہستہ فراق میں برطانیہ کے ہر شہر سے کشمیری کمیونٹی کے اہم نمائندگان کے علاؤہ ممبران پارلیمنٹ انسانی حقوق کے ادارے اور برطانوی میڈیا کا وہ حلقہ بھی شامل ہو گیا جو عدالتی معاملات میں حکومت کی مداخلت کے خلاف تھا۔ ایک ساتھ سیاسی و قانونی جد و جہد کے نتیجے میں ریاض ملک بیس اور میں تقریبا 22 سال بعد بری ہوا۔ برطانیہ جیسی طاقتور ریاست کے خلاف ہماری کامیابی کی بڑی وجہ کشمیری کمیونٹی کا ہماری رہائی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہونا تھا لیکن اگر ریاض اور میں برطانوی حکومت کے سیاسی دبائو کا شکار ہو کر جھک جاتے تو ہماری رہائی کی سیاسی و قانونی مہم کی بنیاد ختم ہو جاتی۔ اس وقت خود کو تحریکی جد و جہد کا انجن قرار دینے والے ہمیں برطانوی حکومت سے معافی تلافی کے مشورے دے رہے تھے مگر ہم نے ضمیر کا سودا کرنے سے انکار کر دیا۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی حمایت کے ساتھ تحریک شروع کرنے کے حوالے سے دو سنئیر ساتھی مجھے جیل میں ملے۔ میں نے کہا کہ چونکہ پاکستان بھی ایک حصے پر قابض ہے تو دنیا اسے کشمیریوں کی تحریک کے بجائے پاک-ھند دو طرفہ جنگ تصور کرے گی جس پر ایک ملاقاتی نے کہا کہ دس سالوں میں ہم اتنے مضبوط ہو جائنگے کہ ہم انکو آنکھیں دکھا سکیں گے۔ میں نے کہا اس سے پہلے کہ آپ انہیں آنکھیں دکھائیں وہ آپکی آنکھیں ہی نکال دیں گے اور یہی ہوا بلکہ آج تو پاکستانیوں سے بھی زیادہ خود کو پاکستانی کہنے والے بزرگ علی شاہ گیلانی کو بھارتی ایجنٹ کہہ دیا گیا ہے۔

بری ہو کر گھر پہنچا تو عوامی خلوص محبت اور استقبال میں کوئی فرق نہ تھا حالانکہ پاکستانی اور برطانوی ایجنسیوں نے میرے استقبال کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ برطانیہ نے ٹی وی پر اعلان کیا کہ قیوم راجہ کو پی آئی اے 702 کی پرواز پر مانچسٹر سے اسلام آباد روانہ کیا جائے گا۔ میرے حامیوں کی بڑی تعداد مانچسٹر ائیرپورٹ پر انتظار کرتی رہی اور مجھے برطانیہ کے خفیہ ادارے ہیتھرو ائیرپورٹ سے اسلام آباد لے ائے جہاں سے پاکستانی خفیہ اداروں نے بھی میڈیا اور میرے استقبال کے لیے آنے والے ہزاروں لوگوں کو ایک مقام پر روکے رکھا اور مجھے خفیہ طور پر آبائی گھر کھوئی رٹہ لے آئے جہاں محبت عقیدت واحترام کی ناقابل بیان مثال دیکھنے میں ائی لیکن سیاسی سادگی کی بھی انتہا تھی۔ پہلے تو بی بی سی ٹی وی بھارت کے زی ٹی وی اور ایک اور چینل کے ساتھ یکے بعد دیگر کل وقت ملا کر ڈیڈھ گھنٹے کے انگریزی میں میرے انٹرویو کو سن کر میرے سامنے نشست پر بھیٹے ایک پروفیسر اٹھے ۔ مجھے گلے لگایا اور کہا قربان جاں اس جیل پر جس نے میرے بیٹے کو اتنا بہترین انسان بنا کر بھیجا۔ یہ سنکر میرا دماغ چکرا گیا اور جیل کے دن رات کے ظلم و ستم میری آنکھوں کے سامنے گھوم گے۔ بعد میں میں نے اس پر ایک کالم بعنوان کامیاب انگریز لکھا جس میں کہا کہ انگریز نے ریاست جموں کشمیر کو تقسیم کیا، فلسطین یہودیوں کو دے دیا سلطنت عثمانیہ کو ختم کر دیا اور مشرق وسطی کی تبائی کر دی مگر پروفیسروں جیسے ہمارے معاشرے کی کریم کے نزدیک انگریز آج بھی امن پسند ہے البتہ میں نے اپنی پہلی تقریر جس میں ہزاروں لوگوں کا مجمع تھا اس میں میرے سامنے بھیٹے ہوئے ایجنسیوں اور پولیس افسران سے مخاطب ہو کر کہا کہ جہاں میں اپنے اوپر برطانوی حکومت کے ظلم و ستم کی داستان سناتا ہوں وہاں اپنی جیب سے اپنا بٹوا نکال کر دکھایا کہ یہ بٹوا میری گرفتاری کے وقت ضبط کر لیا گیا تھا۔ 22 سال بعد جب مجھے بری کیا گیا تو یہ بٹوا مجھے واپس کیا گیا جس میں وہ سارے نوٹ اور سکے اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں لیکن پولیس والو اگر آپکو کسی ملزم کا بٹوا ملے تو کیا کرتے ہیں؟ سیاسی سادگی کی دوسری مثال یہ تھی کہ کچھ لوگوں نے میرے گھر آنا جانا شروع کر دیا ۔ انہوں نے مجھے کہا آپکی بہت بڑی قربانی ہے مگر آپکو اپنا حق لینے کے لیے کسی بڑی جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے۔ انکے نزدیک میرا حق کوئی سرکاری منصب تھا۔ اس تجویز کو میں نے مسترد کر دیا تو مطلوب انقلابی نے کہا کہ اگر میں الیکشن جیت گیا تو صدر سے عمر کی نرمی لے کر آپکو نفسیات کا لیکچرر تعینات کروائونگا۔ مطلوب انقلابی الیکشن جیت کر وزیر تعلیم بنے تو انہوں نے خود بخود صدر آزاد کشمیر سردار یعقوب خان سے عمر کی نرمی لے کر میری تعیناتی کا حکم کروایا مگر پھر مجھے کسی نے فون کیا کہ سیاست تو چھوڑنی پڑے گی تو میں نے کہا میں انتخابی سیاست نہیں کرتا بلکہ آزادی کی جد و جہد کرتا ہوں جو صدر سے لے کر عام شہری تک سبکو کرنی چاہیے۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ جس آزادی کی تحریک کی خاطر صرف ہم نے ہی نہیں بلکہ ہزاروں لوگوں نے اپنا ذاتی مستقبل قربان کر دیا آج وہ تحریک ہماری آنکھوں کے سامنے ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سال میں شہدا کی ایک دو برسیاں منانے اور خود نمائی کے لیے جلسوں کو ہم نے جد و جہد کا نام رکھ لیا ہے۔ میری اپنی تنظیم لبریشن فرنٹ تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہے جس میں کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کا عمل دخل ہے۔ آزادی پسند گرو خود پسند گرو بن چکے ہیں۔ وہ قابضین کے بجائے ایک دوسرے کو فتح کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہر قربانی دینے والے کو پس منظر ۔یں دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو قابضین کا سب سے بڑا ہدف ہے کیونکہ ابن الوقت کے ساتھ معاملات کرنا آسان ہوتا ہے۔ بھارتی جیلوں میں عرصہ دراز سے ہمارے ہزاروں سیاسی قیدی ہیں جنکا کوئی پرسان حال نہیں۔ نام نہاد آزاد کشمیر حکومت اور یورپ اور امریکہ میں بسنے والے لاکھوں باشندگان ریاست ریاستی اسیروں کے لیے موثر آواز نہیں بن سکے۔ دو قیدی آزاد کشمیر میں ہیں ۔ کوئی تنظیم انکے لیے کوئی موثر کردار ادا نہیں کر سکی۔ کیا ہم کسی کی بد دعا یا سازش کا شکار ہیں۔ کچھ تو سوچنا اور کرنا ہو گا۔ میری اپیل ہے کہ جس طرح ہماری رہائی کے لیے فراق مہم قائم کر کے ہماری رہائی کے یک نکاتی ایجنڈے پر کشمیری کمیونٹی متحد ہو گئی تھی اسی طرح بھارتی جیلوں میں سیاسی اسیران کے لیے سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر اندرون و بیرون ملک ہمیں متحد ہو جانا چاہیے ورنہ مقبول بٹ اور افضل گورو کی طرح کچھ جیلوں میں دفن کر دیے جائیں گے اور کچھ کی لاشیں اشرف صحرائی کی طرح ملیں گی!

تعارف: قیوم راجہ

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*